باب: روزے دار پیاس کی وجہ سے اپنے اوپر پانی ڈالے تو کوئی حرج نہیں مگر ناک میں پانی ڈالنے میں احتیاط کرے اور مبالغہ نہ کرے
)
Abu-Daud:
Fasting (Kitab Al-Siyam)
(Chapter: The Fasting Person Pouring Water Upon Himself Due To Thirst, And Exaggerating In Sniffing Water Into The Nose)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2365.
جناب ابوبکر بن عبدالرحمٰن کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا، رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال اپنے سفر میں صحابہ کو روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ”دشمن کے مقابلے کے لیے قوت حاصل کرو۔“ اور آپ ﷺ نے خود روزہ رکھا۔ ابوبکر نے کہا : مجھے حدیث بیان کرنے والے نے بتایا: تحقیق میں نے رسول اللہ ﷺ کو مقام عرج میں دیکھا آپ ﷺ روزے سے تھے اور پیاس یا گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈال رہے تھے۔
تشریح:
(1) سفر یا جہاد میں روزہ افطار کرنا افضل ہے۔ (2) دوران سفر میں روزہ رکھا بھی جا سکتا ہے۔ (3) گرمی یا پیاس کی بے چینی میں اپنے سر یا جسم پر پانی ڈالنا، غسل کرنا یا گیلا کپڑا اوڑھنا مباح ہے۔ اور ایسے ہی ایرکنڈیشن سے فائدہ حاصل کرنا بھی جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي عن مالك عن سُمَي مولى أبي بكر عن أبي بكر بن عبد الرحمن.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير الصحابي الذي لم يُسَمّ؛ فإني لم أعرفه، لكن جهالة الصحابة لا تضر عند أهل السنة. والحديث في الموطأ (1/275) ... بإسناده ومتنه؛ وزاد: ثم قيل لرسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يا رسول الله! إن طائفة من الناس قد صاموا حين صمت؟ قال: فلما كان رسول الله بـ (الكديد) ؛ دعا بِقَدَحٍ فشرب، فأفطر الناس. وأخرجه الحاكم (1/432) ، وعنه البيهقي (4/263) من طريق أخرى عن القعنبي... به دون الزيادة. وأخرجه أحمد (3/475 و 4/63 و 5/376 و 380 و 408 و 430) من طرق أخرى عن مالك... به مطولاً ومختصراً. ولابن أبي شيبة (3/41) منه: صَب الماء. وهو رواية لأحمد. وشذ محمد بن نُعَيْم السَعْدِيُّ عن مالك؛ فسمى الصحابي: أبا هريرة! أخرجه الحاكم، وقال: إن كان حفظه؛ فإنه صحيح على شرط الشيخين .
قلت: السعدي روى عنه أبو حاتم، ولم يذكر فيه ابنه (4/1/109) جرحاً ولا تعديلاً.
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
جناب ابوبکر بن عبدالرحمٰن کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا، رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال اپنے سفر میں صحابہ کو روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ”دشمن کے مقابلے کے لیے قوت حاصل کرو۔“ اور آپ ﷺ نے خود روزہ رکھا۔ ابوبکر نے کہا : مجھے حدیث بیان کرنے والے نے بتایا: تحقیق میں نے رسول اللہ ﷺ کو مقام عرج میں دیکھا آپ ﷺ روزے سے تھے اور پیاس یا گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈال رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) سفر یا جہاد میں روزہ افطار کرنا افضل ہے۔ (2) دوران سفر میں روزہ رکھا بھی جا سکتا ہے۔ (3) گرمی یا پیاس کی بے چینی میں اپنے سر یا جسم پر پانی ڈالنا، غسل کرنا یا گیلا کپڑا اوڑھنا مباح ہے۔ اور ایسے ہی ایرکنڈیشن سے فائدہ حاصل کرنا بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبکر بن عبدالرحمٰن ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے فتح مکہ کے سال اپنے سفر میں لوگوں کو روزہ توڑ دینے کا حکم دیا، اور فرمایا: ”اپنے دشمن (سے لڑنے) کے لیے طاقت حاصل کرو۔“ اور رسول اللہ ﷺ نے خود روزہ رکھا۔ ابوبکر کہتے ہیں: مجھ سے بیان کرنے والے نے کہا کہ میں نے مقام عرج میں رسول اللہ ﷺ کو اپنے سر پر پیاس سے یا گرمی کی وجہ سے پانی ڈالتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ روزے سے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated A Companion of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم): Abu Bakr (RA) ibn 'Abdur Rahman reported on the authority of a Companion of the Prophet (ﷺ): I saw the Prophet (ﷺ) commanding the people while he was travelling on the occasion of the conquest of Makkah not to observe fast. He said: Be strong for your enemy. The Apostle of Allah (ﷺ) fasted himself. Narrated Abu Bakr: A man who narrated his tradition to me said: I have seen the Messenger of Allah (ﷺ) in al-Arj pouring water over his head while he was fasting, either because of thirst or because of heat.