Abu-Daud:
Fasting (Kitab Al-Siyam)
(Chapter: The Permission For That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2423.
امام ابن شہاب زہری کے متعلق آتا ہے کہ ان سے جب یہ ذکر کیا جاتا کہ ہفتے کے دن کا روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے تو وہ کہتے: یہ حدیث حمصی ہے۔
تشریح:
مذکورہ بالا (حدیث:2421) عبداللہ بن بسر کی سند میں ثور بن یزید اور خالد بن معداد اہل حمص سے ہیں۔ اور اس جملے میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے، مگر علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کی تحقیق قابل داد ہے، ارواء الغلیل (ج3،ص:124، حدیث:960) میں فرماتے ہیں: اس حدیث کی تین سندیں ہیں اور تینوں صحیح ہیں۔ ان کی روشنی میں اس پر یہ طعن اسراف ہے۔ ایسے ہی امام مالک کا (درج ذیل) قول کہ یہ جھوٹ ہے بعید از صواب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: هذا نقد غريب لحديث الثقة الصحيح من مثل الإمام ابن شهاب الزهري! ويكفي في ردِّهِ عليه: أن جماعة من الأئمة قد صححوه من بعده كما سبق آنفاً) . إسناده: حدثنا عبد الملك بن شعيب: ثنا ابن وهب قال: سمعت الليث يحدث عن ابن شهاب.
قلت: وهذا إسناد صحيح مقطوع، ولكن بمثله لا يردُّ حديث الثقة الصحيح؛ فإن مداره على ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن عبد الله بن بسر، وكل واحد منهم حمصي؛ فـ (ابن بُسْرٍ) صحابي معروف؛ أفيُرَدّ حديثه لمجرد كونه حمصياً؟! ومثله يقال في خالد وثور؛ فإنهما ثقتان مشهوران. أفيرد حديثهما لكونهما حمصيين؟! تالله! إنه لنقد محْدَثٌ! فمتى كان الحديث يرد بالنظر إلى بلد الراوي؟! ورحم الله الإمام الشافعي حين قال للإمام أحمد: أنتم أعلم بالحديث والرجال مني، فإذا كان الحديث الصحيح؛ فأعلموني به أيَ شيء يكون: كوفياً، أو بصرياً، أو شامياً، حتى أذهب إليه إذا كان صحيحاً . (صفة الصلاة ص 32- الطبعة التاسعة) . وشرح صاحب عون المعبود قول ابن شهاب المذكور بقوله (2/297) : يريد تضعيفه؛ لأن فيه راويان حمصيان (كذا الأصل !) ، أحدهما: ثور بن يزيد. وثانيهما: خالد بن معدان، تكلم فيهما بعض، ووثقهما بعض !
قلت: وهذا تعليل مردود؛ فإن ابن معدان لم يتكلم فيه أحد إلا بالتوثيق، وحسبك فيه احتجاج الأئمة الستة وغيرهم به، وقول الحافظ ابن حجر في التقريب فيه: ثقة عابد . وأما ثور بن يزيد؛ فهو متفق على توثيقه أيضاً والاحتجاج بحديثه، ولم يتكلم فيه أحد بتضعيف؛ وإنما تكلم فيه بعضهم لقوله بالقدر، ولذلك قال الحافظ في مقدمة الفتح (2/120) : اتفقوا على تثبته في الحديث، مع قوله بالقدر... . ونحوه قوله في التقريب : ثقة ثبت، إلا أنه يرى القدر .
قلت: ولا يخفى على العارفين بعلم المصطلح: أن مثل هذا الرأي لا يعتبر جرحاً يُرَدّ به حديث الرجل؛ لأن العبرة في الرواية إنما هو الصدق والضبط، وليس السلامة من البدعة؛ على تفصيل معروف. ولذلك قال الإمام أحمد رحمه الله: لو تركنا الرواية عن القدرية؛ لتركنا أكثر أهل البصرة . قال شيخ الإسلام في الفتاوى (7/386) : وذلك لأن مسألة خلق أفعال العباد وإرادة الكائنات مسألة مشكلة، وكما أن القدرية من المعتزلة وغيرهم أخطأُوا فيها، فقد أخطأ فيها كثير ممن رد عليهم أو أكثرهم؛ فإنهم سلكوا في الرد عليهم مسلك جهم بن صفوان وأتباعه، فنفوا حكمة الله في خلقه وأمره، ونفوا رحمته بعباده، ونفوا ما جعله من الأسباب خلقاً وأمراً... . ولذلك فلا يجوز رَدُّ حديث ثور هذا لأنه يرى القدر، لا سيما وقد قيل إنه رجع عنه؛ فكيف وقد تابعه لقمان بن عامر، كما ذكرت في الإرواء ، وهو صدوق لم يتكلم فيه أحد إلا أنه حمصي أيضاً؟ ا
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
امام ابن شہاب زہری کے متعلق آتا ہے کہ ان سے جب یہ ذکر کیا جاتا کہ ہفتے کے دن کا روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے تو وہ کہتے: یہ حدیث حمصی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ بالا (حدیث:2421) عبداللہ بن بسر کی سند میں ثور بن یزید اور خالد بن معداد اہل حمص سے ہیں۔ اور اس جملے میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے، مگر علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کی تحقیق قابل داد ہے، ارواء الغلیل (ج3،ص:124، حدیث:960) میں فرماتے ہیں: اس حدیث کی تین سندیں ہیں اور تینوں صحیح ہیں۔ ان کی روشنی میں اس پر یہ طعن اسراف ہے۔ ایسے ہی امام مالک کا (درج ذیل) قول کہ یہ جھوٹ ہے بعید از صواب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ ان کے سامنے جب سنیچر (ہفتے) کے دن روزے کی ممانعت کا تذکرہ آتا تو کہتے کہ یہ حمص والوں کی حدیث ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس جملہ سے حدیث نمبر (۲۴۲۱) کی تضعیف مقصود ہے لیکن ،صحیح حدیث کی تضعیف کا یہ انداز بڑا عجیب و غریب ہے، بالخصوص امام زہری جیسے جلیل القدر امام سے، ائمۃ حدیث نے حدیث کی تصحیح فرمائی ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۷؍ ۱۷۹)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Laith: When it was mentioned to Ibn Shihab (al-Zuhri) that fasting on Saturday had been prohibited, he would say: This is a Himsi tradition.