Abu-Daud:
Fasting (Kitab Al-Siyam)
(Chapter: Regarding Fasting The Ten (Days))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2437.
امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذوالحجہ کے (پہلے) نو دن، عاشورہ محرم، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا أبو عوانة عن الحُرِّ بن الصَّبَّاح عن هنَيْدَةَ بن خالد عن امرأته عن بعض أزواج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح، ورجاله ثقات معروفون؛ غير هنيدة بن خالد، وقد روى عنه جمع آخر من الثقات، وأورده ابن حبان في الطبقة الأولى من ثقات التابعين (3/284) . قال الحافظ:
قلت: وذكره أيضاً في الصحابة، وقال: وله صحبة. وكذا ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب ... . وقال في الإصابة : وقال ابن منده: عداده في صحابة الكوفة. وقال أبو إسحاق: كانت أمه تحت عمر بن الخطاب . وأما امرأته؛ فلم أجد لها ترجمة! غير أن الحافظ رحمه الله ذكر في فصل المبهمات من النسوة - من التقريب -: أنها صحابية. والله أعلم. لكن قد اختلفوا على الحُرِّ بن الصباح في إسناده ومتنه: 1- أما الإسناد فعلى وجوه أربعة: الأول: رواية أبي عوانة هذه عنه عن هنيدة عن امرأته... وأخرجها النسائي أيضاً (1/328) ، وأحمد (6/288) ، والطحاوي (1/337) . الثاني: رواه زهير- وهو ابن معاوية- عن الحر قال: سمعت هنيدة الخزاعي قال: دخلت على أم المؤمنين سمعتها تقول... أخرجه النسائي؛ فأسقط من الإسناد امرأة هُنَيْدَةَ. الثالث: قال أبو إسحاق الأشجعي: عن عمرو بن قيس المُلائِي عنه عن هنيدة عن حفصة قالت... فذكره نحوه: أخرجه النسائي. وهذا الوجه كالذي قبله؛ إلا أنه سمى أم المؤمنين: حفصة. الرابع: قال شريك: عنه عن ابن عمر... نحوه: أخرجه النسائي وابن أبي حاتم في العلل (1/231) كما يأتي.
قلت: وأصح هذه الوجوه عندي: الأول والثاني؛ لثقة رجالهما، والتوفيق بينهما سهل بإذن الله تعالى، وذلك بحمل الأول على أنه من (المزيد فيما اتصل من الأسانيد) ؛ فإن الثاني إسناده صحيح متصل بالسماع من هنيدة لأم المؤمنين، فالظاهر أنه سمعه أولاً من امرأته، ثم دخل بنفسه على أم المؤمنين، فسمعه منها مباشرة. وهذا بَينٌ إن شاء الله تعالى. وأما الوجه الثالث؛ ففيه أبو إسحاق الأشجعي؛ قال الذهبي: ما علمت أحداً روى عنه غير أبي النضر هاشم . يعني: أنه مجهول. وقال الحافظ: هو مقبول .
قلت: على أنه مطابق للوجه الثاني كما هو ظاهر؛ إلا أنه سمى أم المؤمنين: حفصة، والخطب في هذا سهل. وأما الوجه الرابع؛ فهو ظاهر الضعف؛ لسوء حفظ شريك- وهو ابن عبد الله القاضي-، وقد شذ في إسناده عن الوجوه الثلاثة، فهو منكر. وإلى ذلك يشير أبو حاتم وأبو زرعة الرازيان فيما نقله عنه ابن أبي حاتم في العلل - قال: سألت أبي وأبا زرعة عن حديث رواه شريك عن الحُر بن الصباح عن ابن عمر..؟ فقال: هذا خطأ؛ إنما هو: الحر بن الصباح عن هنيدة بن خالد عن امرأته عن أم سلمة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ !
قلت: لم أر في شيء من الوجوه المذكورة ذِكْرَ أم سلمة ! وإنما هو أم المؤمنين، وأما أم سلمة فهو في طريق أخرى عن هنيدة عن أمه (وليس عن امرأته) عن أم سلمة: أخرجه المصنف، كما سيأتي ذكره في آخر الكلام على هذا الحديث. وأما الاختلاف في المتن؛ فهو على وجوه أربعة أيضاً: الأول: رواية أبي عوانة: أول اثنين من الشهر والخميسين. وهي في الكتاب كما تقدم. الثاني: رواية زهير بن معاوية مثله؛ لكنه قال: ثم الخميس، ثم الخميس الذي يليه. الثالث: رواية الأشجعي عن عمرو بن قيس بلفظ: ثلاثة أيام من كل شهر... ولم يزد. الرابع: قول شريك... مثل رواية زهير تماماً.
قلت: والعمدة من هذه الوجوه إنما هو الوجه الثاني، لأنه- مع صحة سنده- فيه زيادة بيان على الوجه الأول؛ فضلاً عن الوجه الثالث. والوجه الرابع شاهد له لا بأس به. وقد وجدت للحُرِّ بن الصباح متابعاً، يرويه الحسن بن عبيد الله عن هُنَيْدَةَ الخُزَاعي عن أمِّه عن أم سلمة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يأمرني أن أصوم ثلاثة أيام من الشهر: الاثنين والخميس والخميس. أخرجه البيهقي (4/295) . وهذه متابعة لا بأس بها؛ لكن الحسن هذا فيه ضعف؛ وقد اختلف عليه في متنه. فقيل عنه هكذا. وقيل: عنه بلفظ: الاثنين، والجمعة، والخميس. أخرجه المصنف وغيره. وقيل غير ذلك، مما سأبينه إن شاء الله تعالى في الكتاب الآخر برقم (422/2) .
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذوالحجہ کے (پہلے) نو دن، عاشورہ محرم، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہنیدہ بن خالد کی بیوی سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی کسی بیوی سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ذی الحجہ کے (شروع) کے نو دنوں کا روزہ رکھتے، اور یوم عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ رکھتے نیز ہر ماہ تین دن یعنی مہینے کے پہلے پیر (سوموار، دوشنبہ) اور جمعرات کا روزہ رکھتے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ابوداود کی اس روایت میں اسی طرح واحد کے لفظ کے ساتھ ہے مگر نسائی کی روایت (رقم ۲۳۷۴) میں تثنیہ «الخميسين» کے لفظ کے ساتھ ہے، اور سیاق و سباق سے یہی متبادر ہوتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر تین دن کی تفصیل نہیں ہو پاتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated One of the wives of the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم: Hunaydah ibn Khalid narrated from his wife on the authority of one of the wives of the Prophet (ﷺ) who said: The Apostle of Allah (ﷺ) used to fast the first nine days of Dhul-Hijjah, Ashura' and three days of every month, that is, the first Monday (of the month) and Thursday.