Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: Sacrificing On Behalf Of A Deceased Person)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2790.
جناب حنش (حنش الکنانی، حنش صنعانی) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی ؓ کو دیکھا کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں۔ چنانچہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم امام ابن تیمیہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کے قائل ہیں، جیسے کہ حج اور صدقہ ہوتا ہے۔ لہذا اگرکوئی اپنے کسی فوت شدہ قریبی کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہوگی۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔ تو قربانی بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بھی تو صدقہ ہے۔ اس لئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے۔ اس کا سارا گوشت تقسیم کر دیا جائے۔ خود اس میں سے نہ کھائے۔ (تحفة الأحوذی) دوسرے علماء کہتے ہیں۔ چونکہ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پرمیت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ آپ ﷺکی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی تین صاحبزادیاں آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ دنیا سے جا چکے تھے۔ لیکن آپ نے ان میں سے کسی کےلئے بھی خصوصی طور پر قربانی جائز نہیں کی۔ البتہ آپ نے اپنی قربانی میں یہ الفاظ ضرور کہے۔ اے اللہ! اس کو محمد ﷺ اور آل محمدﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما۔ (صحیح مسلم،کتاب الأوضاحی، حدیث: 1967) اس میں امت محمد ﷺ کے زندہ اور فوت شدہ سارے ہی افراد آجاتے ہیں۔ اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اپنی قربانی میں قربانی کرنے والا جن جن کو چاہے شریک کرسکتا ہے۔ حتیٰ کہ فوت شدگان کوبھی لیکن ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی پر اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ بنا بریں صرف فوت شدگان کی طرف سے الگ مستقل قربانی کا جواز محل نظرہوگا۔ غالبا اسی لئے شیخ البانی نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔ کہ امت کی طرف سے قربانی کرنے والا عمل نبی کریمﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ جس میں امت کےلئے آپ کی اقتداء جائز نہیں۔ دیکھئے۔ (إرواءالغلیل: 353/4) اس کی تایئد اس سے بھی ہوتی ہے۔ کہ سلف (صحابہ وتابعین) کے دور میں اس عمل (میت کی طرف سے قربانی کرنے) کا ثبوت نہیں ملتا۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لسوء حفظ شرِيْك- وهو ابن عبد الله القاضي-. وحنشٌ - وهو ابن المعتمر الصنعاني- ضعٌفه الجمهور. وأبو الحسناء مجهول. واستغربه الترمذي، وضعّفه البيهِقي) . إسناده: حدثنا عثمان ابن أبي شيبة: ثنا شريك...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لسوء حفظ شريك- كما تقدم مراراً-، وقد توبع على بعضه كما يأتي. وحنشٌ - وهو ابن المعتمر الصنعاني- ضعّفه الجمهور. وقال ابن حبان في المجروحين (1/269) : كان كثير الوهم في الأخبار. ينفرد عن علي عليه السلام بأشياء لا تشبه حديث الثقات؛ حتى صار ممن لا يحتج به . وبه أعله المنذري، ثم بشريك. وإعلاله بمن بينهما- وهو أبو الحسناء- أولى؛ فإنه مجهول؛ كما قال الذهبي والعسقلاني. والحديث أخرجه عبد الله بن أحمد في زوائد المسند (1/155) بإسناد المؤلف ومتنه. ثم أخرجه هو (1/149) ، والترمذي (1495) ، والبيهقي (9/ 288) من طريق أخرى عن شريك... به. واستغربه الترمذي والحاكم (4/229- 230) ، وقال البيهقي: تفرد به شريك بن عبد الله بإسناده، وهو- إن ثبت- يدل على جواز التضحية عمّن خرج من دار الدنيا من المسلمين . وأما الحاكم فقال: صحيح الإسناد، وأبو الحسناء هذا هو الحسن بن الحكم النخعي ! ووافقه الذهبي!! وأقول: كلا! وقد تفرد به شرِيْك، وفوقه الحنش ! والنخعي كنيته أبو الحكم، وليست أبا الحسناء! وإنما يصِح عن حنشِ طرفه الأول.. الموقوف؛ فقد رواه عبد الرزاق (8137) عن الثوري عن أبي إسحاق عن حنش: أن علياً ضحّى بكبشين. وللحديث طريق أخرى: عند البيهقي من طريق أبي بكر الزبيدي عن عاصم ابن شريب قال: أُتِي على بن أبي طالب رضي الله عنه يوم النحر بكبش؛ فذبحه، وقال: بسم الله، اللهم! منك ولك، ومن محمد لك، ثم أمر به؛ فتصدق به. ثم أتِي بكبش اخر؛ فذبحه، وقال: بسم الله، اللهم! منك ولك، ومن علي لك. قال: ثم قال: ائتني بطابق منه، وتصدق بسائره. لكن عاصم هذا مجهول؛ كما قال الذهبي. وأبو بكر الزبيدي مثله؛ كما يشير إلى ذلك قول الذهبي: ما حدّث عنه سوى بقِية . ونحوه في التهذيب ، فقوله في التقريب : مجهول الحال ! مما لا وجه له كما يقتضيه علم مصطلح الحديث. والله أعلم.
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
جناب حنش (حنش الکنانی، حنش صنعانی) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی ؓ کو دیکھا کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں۔ چنانچہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم امام ابن تیمیہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کے قائل ہیں، جیسے کہ حج اور صدقہ ہوتا ہے۔ لہذا اگرکوئی اپنے کسی فوت شدہ قریبی کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہوگی۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔ تو قربانی بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بھی تو صدقہ ہے۔ اس لئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے۔ اس کا سارا گوشت تقسیم کر دیا جائے۔ خود اس میں سے نہ کھائے۔ (تحفة الأحوذی) دوسرے علماء کہتے ہیں۔ چونکہ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پرمیت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ آپ ﷺکی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی تین صاحبزادیاں آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ دنیا سے جا چکے تھے۔ لیکن آپ نے ان میں سے کسی کےلئے بھی خصوصی طور پر قربانی جائز نہیں کی۔ البتہ آپ نے اپنی قربانی میں یہ الفاظ ضرور کہے۔ اے اللہ! اس کو محمد ﷺ اور آل محمدﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما۔ (صحیح مسلم،کتاب الأوضاحی، حدیث: 1967) اس میں امت محمد ﷺ کے زندہ اور فوت شدہ سارے ہی افراد آجاتے ہیں۔ اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اپنی قربانی میں قربانی کرنے والا جن جن کو چاہے شریک کرسکتا ہے۔ حتیٰ کہ فوت شدگان کوبھی لیکن ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی پر اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ بنا بریں صرف فوت شدگان کی طرف سے الگ مستقل قربانی کا جواز محل نظرہوگا۔ غالبا اسی لئے شیخ البانی نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔ کہ امت کی طرف سے قربانی کرنے والا عمل نبی کریمﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ جس میں امت کےلئے آپ کی اقتداء جائز نہیں۔ دیکھئے۔ (إرواءالغلیل: 353/4) اس کی تایئد اس سے بھی ہوتی ہے۔ کہ سلف (صحابہ وتابعین) کے دور میں اس عمل (میت کی طرف سے قربانی کرنے) کا ثبوت نہیں ملتا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حنش کہتے ہیں کہ میں نے علی ؓ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): Hanash said: I saw Ali sacrificing two rams; so I asked him: What is this? He replied. The Apostle of Allah (ﷺ) enjoined upon me to sacrifice on his behalf, so that is what I am doing.