Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Urinating In Al-Mustaham (The Bathing Area))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
28.
حمید حمیری، عبدالرحمٰن کے صاحب زادے کہتے ہیں کہ میں ایک صاحب سے ملا جو رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یافتہ تھے جیسے کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ آپ ﷺ کی صحبت میں رہے تھے، انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہمارا کوئی شخص ہر روز کنگھی کرے پا اپنے غسل خانے میں پیشاب کرے۔
تشریح:
فوائدومسائل: غسل خانے میں پیشاب سے بچنا ہی افضل ہے خواہ وہ کچا ہو یا سیمنٹ اور چپس وغیرہ سے بنا ہو کیونکہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ پیشاب کے لیے جگہ علیحدہ بنی ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ الغرض طہارت میں بداحتیاطی کی وجہ سے وسوسہ لاحق ہوسکتا ہے۔(2) ہر روز کنگھی سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عام دنیا داروں کی طرح ظاہری ٹیپ ٹاپ کا بہت زیادہ اہتمام نہیں ہونا چاہیے جیسے کہ عربوں کا عام معمول تھا کہ وہ بال لمبے رکھتے تھے، البتہ سادہ انداز میں کنگھی سے بالوں کو برابر کرنا کہ انسان باوقار نظر آئے ان شاء اللہ مباح ہے۔ عام مفہوم میں کنگھی کرنے کو بھی محدثین کرام نے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی زیب وزینت کو روزانہ کا معمول نہ بنائے جیسے کہ ہمارے گھروں میں یہ مصیبت در آئی ہے کہ حمام میں آئینہ، کنگھا، تیل وعطر، دروازے پر آئینہ کنگھا اور ڈریسنگ میز وغیرہ سجے رہتے ہیں۔ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر روز دوبار کنگھی کرتے تھے۔ (3) حدیث شریف میں وارد حکم مردوں کےساتھ ساتھ عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اگرچہ زیب وزینت ان کے لیے ایک اعتبار سے مطلوب ہے مگر اس میں بھی اعتدال ضروری ہے، نہ یہ کہ انسان ہروقت اپنی ظاہری اور مصنوعی افزائش حسن ہی پر لگا رہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي والعسقلاني والعراقي) . إسناده: ثنا أحمد بن يونسر: ثنا زهير عن داود بن عبد الله عن حميد الحميري. وهذا سند صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن عبد الله الأودي؛ وهو ثقة باتفاق النقاد. وللحديث تتمة تأتي برقم (74) . والحديث أخرجه النسائي أيضا (1/47 و 2/276) ، والحاكم (1/ 168) ،
والبيهقي (1/190) من طرق عن داود بن عبد الله الأودي عنه. وقال البيهقي: رواته ثقات؛ إلا أن حميداً لم يسم الصحابي الذي حدثه؛ فهو بمعنى المرسل ! وتعقبه ابن التركماني فأصاب، حيث قال: قد قدمنا أن هذا ليس بمرسل، بل هو متصل؛ لأنّ الصحابة كلهم عدول، فلا تضرهم الجهالة . ولذلك قال النووي في المجموع (2/91) ، والعراقي في التقريب (2/40) ، والحافظ في بلوغ المرام (1/22 من شرحه) : وإسناده صحيح . وقال في الفتح (1/240) : رجاله ثقات، ولم أقف لمن أعله على حجة قوية، ودعوى البيهقي أنه في معنى المرسل مردودة؛ لأنّ إبهام الصحابي لا يضر، وقد صرح التابعي بأنه لقيه. ودعوى ابن حزم أن داود- راويه عن حميد بن عبد الرحمن- هو ابن يزيد الأودي، وهو ضعيف: مردودة؛ فإنه ابن عبد الله الأودي، وهو ثقة، وقد صرح باسم أبيه أبو داود وغيره .
والحديث سكت عليه المنذري (رقم 26) . وله شاهد بسند حسن عن عبد الله بن يزيد، خرّجته في الصحيحة
(2516) في التبوُل.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
حمید حمیری، عبدالرحمٰن کے صاحب زادے کہتے ہیں کہ میں ایک صاحب سے ملا جو رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یافتہ تھے جیسے کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ آپ ﷺ کی صحبت میں رہے تھے، انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہمارا کوئی شخص ہر روز کنگھی کرے پا اپنے غسل خانے میں پیشاب کرے۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل: غسل خانے میں پیشاب سے بچنا ہی افضل ہے خواہ وہ کچا ہو یا سیمنٹ اور چپس وغیرہ سے بنا ہو کیونکہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ پیشاب کے لیے جگہ علیحدہ بنی ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ الغرض طہارت میں بداحتیاطی کی وجہ سے وسوسہ لاحق ہوسکتا ہے۔(2) ہر روز کنگھی سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عام دنیا داروں کی طرح ظاہری ٹیپ ٹاپ کا بہت زیادہ اہتمام نہیں ہونا چاہیے جیسے کہ عربوں کا عام معمول تھا کہ وہ بال لمبے رکھتے تھے، البتہ سادہ انداز میں کنگھی سے بالوں کو برابر کرنا کہ انسان باوقار نظر آئے ان شاء اللہ مباح ہے۔ عام مفہوم میں کنگھی کرنے کو بھی محدثین کرام نے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی زیب وزینت کو روزانہ کا معمول نہ بنائے جیسے کہ ہمارے گھروں میں یہ مصیبت در آئی ہے کہ حمام میں آئینہ، کنگھا، تیل وعطر، دروازے پر آئینہ کنگھا اور ڈریسنگ میز وغیرہ سجے رہتے ہیں۔ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر روز دوبار کنگھی کرتے تھے۔ (3) حدیث شریف میں وارد حکم مردوں کےساتھ ساتھ عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اگرچہ زیب وزینت ان کے لیے ایک اعتبار سے مطلوب ہے مگر اس میں بھی اعتدال ضروری ہے، نہ یہ کہ انسان ہروقت اپنی ظاہری اور مصنوعی افزائش حسن ہی پر لگا رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حمید بن عبدالرحمٰن حمیری کہتے ہیں کہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں اسی طرح رہا جیسے ابوہریرہ ؓ آپ ﷺ کی صحبت میں رہے، اس نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی ہر روز کنگھی کرے یا غسل خانہ میں پیشاب کرے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated A Man from the Companions (RA): Humayd al-Himyari said: I met a man (Companion of the Prophet) who remained in the company of the Prophet (ﷺ) just as AbuHurayrah remained in his company. He then added: The Apostle of Allah (ﷺ) forbade that anyone amongst us should comb (his hair) every day or urinate in the place where he takes a bath.