Abu-Daud:
Game (Kitab Al-Said)
(Chapter: On Following The Game)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2859.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے بادیہ (جنگل) کی سکونت اختیار کی، وہ سخت دل ہوا، اور جو شکار کے پیچھے پڑا، وہ غافل ہوا اور جو حاکم کے پاس آتا جاتا رہا، آزمائش میں پڑا۔“
تشریح:
جنگل اور شکار میں انسان آذاد ہوتا ہے۔ اختلاط اور اجتماعیت نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کی فضیلت سے محرومی کے علاوہ علماء اور صالحین کی مجالس بھی میسر نہیں ہوتیں۔اور نہ کوئی معروف ومنکر ہی کی تنبیہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس کا اثرطبعیت کی سختی اور غفلت کی صورت میں ظاہرہوتا ہے۔ جو واضح ہے کہ خسارے کا سودا ہے۔ اور اسی طرح بادشاہ کی مجلس میں بالعموم یا تو اس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ یا مخالفت مول لینی پڑتی ہے۔ اور دونوں صورتوں میں آزمائش وامتحان ہے۔ إلا ماشاء اللہ۔ اس لئے چاہیے کہ انسان ایسی جگہ سکونت اختیار کرے جہاں دونوں سہولتیں میسر ہوں۔ شہری بھی او ردیہاتی بھی، جیسے کہ شہر کی مضافاتی بستیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ استدلال ہے، اس مومن سے جس کا ذکر سورہ یٰس میں ہے۔ (وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ) (یٰس ۔20) اور شہر کی ایک جانب سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا۔ اے میری قوم ان رسولوں کی پیروی کرلو۔ اور مقصد صالح کے بغیر بادشاہوں کی صحبت سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔ اور اس سے مراد دنیا دار بے دین قسم کے بادشاہ ہیں۔ مومن بادشاہ کی صحبت میں بلاشبہ کوئی فتنہ نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
٭شکار کی لغوی اور اصطلاحی تعریف :لغت میں شکار کو ’’الصيد‘‘ کہتے ہیں اور یہ صَادَ يَصيدُ سے مصدر ہے‘جس کے معنی پکڑنے اور حاصل کرنے کے ہیں۔اصطلاح میں’’الصيد‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔(أَخُذُ مُبَاحٍ أكْلُه غَيْرَ عَلَيهِ مِنْ وَحْشِ أوْ طَيْرٍ أوْ حَيْوانِ بَرٍّ أوْ بَحْرٍ بِقَصْدٍ)’’ایسے وحشی جانور یا پرندے کو ارادتاً یا شکار کرنا‘ جو انسانوں کی دسترس میں نہ ہوں اور جن کا کھانا حلال ہو۔‘‘
٭شکار کی مشروعیت :شکار کرنا حلال اور جائز ہے۔ شریعت مطہرہ نے اس کی اجازت دی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ)(المائدۃ:4) ’’ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام پاک چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنھیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمھیں دے رکھی ہے‘ پس جس شکار کو وہ تمھارے لیے پکڑ کر روک رکھیں ، تو تم اس سے کھا لو ۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر لیا کرو۔اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ شکار کی بابت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ المُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ثُمَّ كُلْ)(صحيح البخارى ~الذبائح والصيد.باب ماجا ء فى التصيد. حديث:5488) ’’اور جو تم سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کرو‘ تو اس پر اللہ کا نام ذکر کرو پھر کھا لو۔‘‘
٭شکار کے متعلق چند ضروری آداب و احکام:1 سمندری شکار مُحرِم اور غیر مُحرم دونوں شخص کر سکتے ہیں ۔جبکہ محرم کے لیے بَرّی (خشکی کا) شکار کرنا ناجائز ہے۔2 شکار کے لیے کتا چھوڑتے وقت یا فائر کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔3 شکار کے لیے آلہ تیز دھار ہونا چاہیے جیسے تیر‘گولی یا نیزا وغیرا ۔ اگر شکار چوٹ لگنے سے مر گیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہوگا 4 اگر کتے کے ذریعے سے شکار کیا جائے تو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ غیر سدھائے ہوئے کتے شریک نہ ہوئے ہوں ۔5 اگر کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا تو اسے کھانا درست نہیں۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے بادیہ (جنگل) کی سکونت اختیار کی، وہ سخت دل ہوا، اور جو شکار کے پیچھے پڑا، وہ غافل ہوا اور جو حاکم کے پاس آتا جاتا رہا، آزمائش میں پڑا۔“
حدیث حاشیہ:
جنگل اور شکار میں انسان آذاد ہوتا ہے۔ اختلاط اور اجتماعیت نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کی فضیلت سے محرومی کے علاوہ علماء اور صالحین کی مجالس بھی میسر نہیں ہوتیں۔اور نہ کوئی معروف ومنکر ہی کی تنبیہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس کا اثرطبعیت کی سختی اور غفلت کی صورت میں ظاہرہوتا ہے۔ جو واضح ہے کہ خسارے کا سودا ہے۔ اور اسی طرح بادشاہ کی مجلس میں بالعموم یا تو اس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ یا مخالفت مول لینی پڑتی ہے۔ اور دونوں صورتوں میں آزمائش وامتحان ہے۔ إلا ماشاء اللہ۔ اس لئے چاہیے کہ انسان ایسی جگہ سکونت اختیار کرے جہاں دونوں سہولتیں میسر ہوں۔ شہری بھی او ردیہاتی بھی، جیسے کہ شہر کی مضافاتی بستیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ استدلال ہے، اس مومن سے جس کا ذکر سورہ یٰس میں ہے۔ (وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ) (یٰس ۔20) اور شہر کی ایک جانب سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا۔ اے میری قوم ان رسولوں کی پیروی کرلو۔ اور مقصد صالح کے بغیر بادشاہوں کی صحبت سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔ اور اس سے مراد دنیا دار بے دین قسم کے بادشاہ ہیں۔ مومن بادشاہ کی صحبت میں بلاشبہ کوئی فتنہ نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص صحراء اور بیابان میں رہے گا اس کا دل سخت ہو جائے گا، اور جو شکار کے پیچھے رہے گا وہ (دنیا یا دین کے کاموں سے) غافل ہو جائے گا، اور جو شخص بادشاہ کے پاس آئے جائے گا وہ فتنہ و آزمائش میں پڑے گا (اس سے دنیا بھی خراب ہو سکتی ہے اور آخرت بھی)۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said: (the narrator Sufyan said: I do not know but that it [the tradition] has been transmitted from the Prophet (ﷺ) : He who lives in the desert will become rude; he who pursues the game will be negligent, and he who visits a king will be perverted.