Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related Of Evidence That The Shroud Is From One's Wealth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2876.
سیدنا خباب ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا مصعب بن عمیر ؓ احد کے روز شہید ہو گئے اور ان کے پاس صرف ایک دھاری دار چادر تھی۔ ہم جب اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پاؤں پر کچھ اذخر (گھاس) ڈال دو۔“
تشریح:
1۔ میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل سے پیشتر کفن دفن کا اہمتام لازمی ہے۔ اگر وار ث یا کوئی دوسرا شخص ا س کا اہتمام نہ کرے تو یہ خرچ خود اس کے مال سے لیا جائےگا۔ اگر مرنے والے کا کل مال اس کے کفن دفن پر خرچ ہوجائے۔ تو دیگر وارث وغیرہ محروم ہوں گے۔ 2۔ ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی معاشی حالت بہت تنگ تھی۔ 4۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی اپنی ہی چادر میں کفن دیا گیا۔ مذید کا اہتمام نہیں کیا جا سکا تھا۔ 4۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کل مال یہی تھا۔ اس لئے اسی میں سے ان کا کفن تیار کیا گیا۔
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا خباب ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا مصعب بن عمیر ؓ احد کے روز شہید ہو گئے اور ان کے پاس صرف ایک دھاری دار چادر تھی۔ ہم جب اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پاؤں پر کچھ اذخر (گھاس) ڈال دو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل سے پیشتر کفن دفن کا اہمتام لازمی ہے۔ اگر وار ث یا کوئی دوسرا شخص ا س کا اہتمام نہ کرے تو یہ خرچ خود اس کے مال سے لیا جائےگا۔ اگر مرنے والے کا کل مال اس کے کفن دفن پر خرچ ہوجائے۔ تو دیگر وارث وغیرہ محروم ہوں گے۔ 2۔ ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی معاشی حالت بہت تنگ تھی۔ 4۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی اپنی ہی چادر میں کفن دیا گیا۔ مذید کا اہتمام نہیں کیا جا سکا تھا۔ 4۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کل مال یہی تھا۔ اس لئے اسی میں سے ان کا کفن تیار کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
خباب ؓ کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر ؓ احد کے دن قتل کر دیے گئے، اور ان کے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہ تھا، جب ہم ان کا سر ڈھانکتے تو ان کے دونوں پاؤں کھل جاتے اور جب دونوں پاؤں ڈھانکتے تو ان کا سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر اذخر ڈال دو۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اذخر بلاد عرب میں ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے جو بہت سی ضرورتوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khabbab (RA): Mus'ab b. 'Umar was killed at the battle of Uhud, and for him only a coarse cloth would be found as shroud. When we covered his head, his feet showed, and when we covered his feet, his head showed. So the Messenger of Allah (ﷺ) said: Cover his head with it (cloth), and put some rushes over his feet.