Abu-Daud:
Shares of Inheritance (Kitab Al-Fara'id)
(Chapter: Regarding Allegiances)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2925.
سیدنا جبیر بن مطعم ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسلام میں کوئی (نیا) حلف نہیں ہے اور قیل از اسلام (ایام جاہلیت میں) جو عہد معاہد ے ہو چکے ان کو اسلام نے اور مضبوط کیا ہے۔“
تشریح:
اسلام نے اپنے معتقدین کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنایا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ)(الحجرات:10) مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ چنانچہ واجب ہے کہ یہ ایک جان اور ایک جسم بن کر رہیں۔ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں کہ قبل از اسلام کے انداز میں مصنوعی معاہدے کرتے پھریں۔ بلکہ یہ چیز ان کے عقیدے اور عمل کا بنیادی عنصر ہے۔ بہرحال جو معاہدات اس سے پہلے ہوچکے ہیں۔ اسلام انہیں خیر وصلاح کی بنیاد پر اور مظبوط بناتا ہے۔
٭فرائض کی لغوی اور اصطلاحی تعریف:[فرائض ‘ فريضة] کی جمع ہے جس کے معنی ہیں‘مقرر کیا ہوا‘اندازاہ لگایا ہوا‘حساب کیا ہوا۔اصطلاح میں ’’ فرائض ‘‘ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :(عِلْمٌ يُعْرَفُ بِهِ مَنْ يَّرِثُ مَنْ لًأ يَرِثُ وَ مِقْدَارُ مَا لِكُلِّ وَارِثٍ )’’ فرائض سے مراد وہ علم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون وارث ہے ‘ کون نہیں اور ہر وارث کا کیا حق ہے۔‘‘
وراثت کی تقسیم کو ’’فرائض‘‘ کا نا اس دیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ نے اسے فرائض کہا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(فَرِضَةً مِّنَ اللهِ) اور ارشاد نبوی ہے:[تَعًلِّمُوا الفَرَائضَ] يا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر احکامات مثلاً نماز ‘روزہ‘حج یا زکوٰۃ وغیرہ کے بر عکس وراثت کے احکام میں تفصیلات خود بیان فرمائی ہیں‘ ہر حقدار کا حصہ مقرر فرما دیا ہے اس لیے اسے فرائض یعنی مقدر اور مقرر کیے ہوئے حقوق کہا جاتا ہے۔
٭وراثت کی مشروعیت :اسلام کے انسانیت پر بے شمار احسانات میں سے ایک وراثت کی تقسیم کے عادلانہ قوائد و ضوابط بھی ہیں ‘ اسلام سے قبل طاقت اور قوت ہی سکہ ٔرائج الوقت تھا۔ لہذا طاقت ور تمام آبائی جائیداد کے وارث بنتے جبکہ کمزور و ناتواں افراد خصوصا عورتیں اس سے بالکل محروم رکھے جاتے۔جیسا کہ ابتدائے اسلام میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے پھر پروردگار عالم نے انسانیت پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے وراثت کی تقسیم کے قوانین نازل فرما کر اس قدیم ظلم کا خاتمہ فر ما دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا)(النساء:4/7)’’ جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں ‘وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کابھی ‘ یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں ۔‘‘ نیز ضعیف و کمزور بچوں کے بارے میں فرمایا(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ)(النساء4/11)’’ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘
٭وراثت کی شرائط ‘اسباب اور موانع : اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ‘اپنے حق کے حصول کیلئے چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے ‘ چند اسباب ہیں جن کے بغیر حقدار بننے کا دعوی نہیں کر سکتا اور چند رکاوٹیں ہیں جو کسی حقدار کو اس کے حق کی وصولی میں مانع ہیں ‘ان کی تفصیل اس طرح ہے
شرائط: 1میت (مورث) کی موت کا یقینی علم ہونا۔2 وارث کا اپنے مورث کی موت کے وقت زندہ ہونا ۔3 وراثت کے موانع کا نہ پایا جانا۔
اسباب:وراثت کے حصول کے لیے درج ذیل تین اسباب ہیں:
نسبی قرابت :جیسے باپ‘ دادا ‘بیٹا‘ پوتا وغیرہ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ) (النساء) 4/33) ’’ہر مال میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ‘ہم نے حقدار مقرر کر دیے ہیں۔‘‘
٭مسنون نکاح:کسی عورت اور مرد کا مسنون نکاح بھی ان کے ایک دوسرے کے وارث بننے کا سبب ہے ، خواہ اس نکاح کے بعد عورت کی رخصتی اور مرد سے خلوت ِصحیحہ ہو یا نہ ہو۔ارشاد باری تعالی ہے (وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ)(النساء :4/14)
٭ولاء:غلام کو آزاد کرنے والا اپنے غلام کا وارث بنتا ہے اور اگر آزاد کرنے والے کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد ہونے والا غلام اس کا وارث بنتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «إِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»’’یقیناً ولاء (وراثت کا حق) اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا۔‘‘ (صحيح البخارى ~الفرائض~ باب الولاء لمن أعتق وميراث اللقيط~ حديث:6756)
موانع:درج ذیل امور وارث کو اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں:
٭قتل : اگر وارث اپنے مورث کو ظلماً قتل کر دے تو وہ محروم کر دیتے ہیں:
٭کفر:کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر رشتہ دار کا وارث نہیں بنتا۔
٭غلامی:غلام وارث نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود کسی کی ملکیت ہوتا ہے۔
٭زنا:حرامی اولاد اپنے زانی باپ کی وارث نہیں بنتی۔
٭لعان:لعان کی صورت میں جدائی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے۔
٭وہ بچہ جو پیدائش کے وقت چیخ وغیرہ نہ مارے یعنی اس میں زندگی کے آثار نہ ہوں تو وہ بھی وارث نہیں بنتا۔
تمہید باب
(حلف) (ح کے نیچے زیر اور لام ساکن) قوم کا آپس میں یا کسی دوسرے کے ساتھ دوستی اور تعاون کا مضبوط عہد وپیمان حلف کہلاتا ہے۔ اور فریقین کو ایک دوسرے کا حلیف کہتےہیں۔ایام جاہلیت میں لوگاپنے حلیف کی تایئد ونصرت میں جان تک دیتے تھے۔ خواہ وہ حق پر ہوتا یا ناحق پر۔
سیدنا جبیر بن مطعم ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسلام میں کوئی (نیا) حلف نہیں ہے اور قیل از اسلام (ایام جاہلیت میں) جو عہد معاہد ے ہو چکے ان کو اسلام نے اور مضبوط کیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
اسلام نے اپنے معتقدین کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنایا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ)(الحجرات:10) مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ چنانچہ واجب ہے کہ یہ ایک جان اور ایک جسم بن کر رہیں۔ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں کہ قبل از اسلام کے انداز میں مصنوعی معاہدے کرتے پھریں۔ بلکہ یہ چیز ان کے عقیدے اور عمل کا بنیادی عنصر ہے۔ بہرحال جو معاہدات اس سے پہلے ہوچکے ہیں۔ اسلام انہیں خیر وصلاح کی بنیاد پر اور مظبوط بناتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جبیر بن مطعم ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (زمانہ کفر کی) کوئی بھی قسم اور عہد و پیمان کا اسلام میں کچھ اعتبار نہیں، اور جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں (بھلے کام کے لیے) تھا تو اسلام نے اسے مزید مضبوطی بخشی ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: کفار عرب کا دستور تھا کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا ہم حلیف ہوتا، اور ہر ایک دوسرے کا حق و ناحق میں مدد کرتا تھا، سو فرمایا کہ اسلام میں کفر کی قسم اور عہد و پیمان کا کوئی اعتبار نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jubair b. Mu'tim (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: There is no alliance in Islam, and Islam strengthened the alliance made during pre-Islamic days.