کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: وہ خاص اموال جو رسول اللہ ﷺ اپنے لیے مخصوص کر لیا کرتے تھے
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: Regarding Allocating A Special Portion For The Messenger Of Allah (saws) From Wealth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2965.
سیدنا مالک بن اوس بن حدثان ؓ، سیدنا عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ تھے اور نہ اونٹ۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ ہی کے لیے مخصوص تھے۔ آپ ﷺ اپنے اہل بیت پر خرچ کرتے تھے۔ (امام ابوداؤد ؓ کے شیخ) احمد بن عبدہ نے کہا: آپ ﷺ اپنے اہل کا ایک سال کا خرچ لے لیتے اور جو باقی بچتا اس کو گھوڑوں اور جہاد فی سبیل اللہ کے سامان میں لگا دیتے۔ ابن عبدہ کے الفاظ تھے: «في الكراع والسلاح» (معنی وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں)۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اموال مخصوص کئے وہ تین طرح کے تھے۔ (الف) وہ اراضی جو انصار نے اپنی زمینوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔ان اراضی پرپانی نہیں پہنچتاتھا۔ (ب) مخیریق یہودی نے عہد کے موقع پر اسلام لاتے ہوئے بنو نضیر کے علاقے میں اپنے سات باغات کی وصیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی (ج) بنو نضیرنے جب لڑے بغیر ہتھیار ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلحہ کے علاوہ جوکچھ اونٹوں وغیرہ پر اٹھا کرلے جا سکتے تھے۔ لے جانے کی اجازت دی۔ باقی سب کچھ فے تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی باقی ماندہ تمام منقولہ جایئداد مسلمانوں میں تقسیم کردی۔ زمین وغیرہ کی آمدنی سے اپنے آپ اخراجات پورے کرتے تھے۔ لیکن زیادہ آمدنی مسلمانوں کے ولی امر کی حیثیت سے جہاد اور دیگر فوری نوعیت کی ضرورتوں پر خرچ کرتے۔ بعد ازاں خیبر کی فتح کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے وسیع اور زرخیز علاقے مسلمانوں کو عطا کردیئے۔ خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوا تھا۔ اور جو مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔ اور باقی آدھا جس میں فدک اور وادی القرُیٰ کے حصے تھے۔ بغیر جنگ کے حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بطور فے آپ کی تحویل میں آگیا۔ اس طرح خیبر کے قلعوں میں سے وطیع اور سلالم بھی بصورت فے حاصل ہوئے۔ خیبر کا جو حصہ جنگ کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ اس کا خمس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھا۔ (عون المعبود باب في صفایا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من الأموال، شرح حدیث 2969) 2۔ خیبر کے اموال جب تحویل میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سال کے کم از کم مقدار میں کھانے کے اخراجات کے بعد باقی سب آمدنی مصیبت زدہ افراد انسانی اور خاندانی حقوق کی ادایئگی کےلئے مختص کردی۔ (ان میں بچوں کی خبر گیری نوجوانوں یا بیوہ عورتوں کی شادی جیسی مدات شامل تھیں۔ (أبو داود، حدیث: 3012۔2970) 3۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اموال کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔ البتہ آل محمد یا نساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا خرچ اس میں سے ادا ہوگا۔ باقی صدقہ ہوگا۔ (ابوداود، حدیث: 2968۔2974) اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ان سب اموال کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کے پاس رہے گی۔ اور ان کی آمدنی بعینہ انہی مصارف پر خرچ ہوگی۔ جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔ اس فیصلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت پوری امت کا اجماع ہوا۔ (ابوداود، حدیث: 2963۔2970) چونکہ ان صفایا (خاص اموال) کو آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔ اس لئے اب ان اموال کو صفایا کی بجائے صدقۃ الرسول کہا جائےگا۔ (ابوداود، حدیث: 2968۔2970)
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
سیدنا مالک بن اوس بن حدثان ؓ، سیدنا عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ تھے اور نہ اونٹ۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ ہی کے لیے مخصوص تھے۔ آپ ﷺ اپنے اہل بیت پر خرچ کرتے تھے۔ (امام ابوداؤد ؓ کے شیخ) احمد بن عبدہ نے کہا: آپ ﷺ اپنے اہل کا ایک سال کا خرچ لے لیتے اور جو باقی بچتا اس کو گھوڑوں اور جہاد فی سبیل اللہ کے سامان میں لگا دیتے۔ ابن عبدہ کے الفاظ تھے: «في الكراع والسلاح» (معنی وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں)۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اموال مخصوص کئے وہ تین طرح کے تھے۔ (الف) وہ اراضی جو انصار نے اپنی زمینوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔ان اراضی پرپانی نہیں پہنچتاتھا۔ (ب) مخیریق یہودی نے عہد کے موقع پر اسلام لاتے ہوئے بنو نضیر کے علاقے میں اپنے سات باغات کی وصیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی (ج) بنو نضیرنے جب لڑے بغیر ہتھیار ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلحہ کے علاوہ جوکچھ اونٹوں وغیرہ پر اٹھا کرلے جا سکتے تھے۔ لے جانے کی اجازت دی۔ باقی سب کچھ فے تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی باقی ماندہ تمام منقولہ جایئداد مسلمانوں میں تقسیم کردی۔ زمین وغیرہ کی آمدنی سے اپنے آپ اخراجات پورے کرتے تھے۔ لیکن زیادہ آمدنی مسلمانوں کے ولی امر کی حیثیت سے جہاد اور دیگر فوری نوعیت کی ضرورتوں پر خرچ کرتے۔ بعد ازاں خیبر کی فتح کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے وسیع اور زرخیز علاقے مسلمانوں کو عطا کردیئے۔ خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوا تھا۔ اور جو مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔ اور باقی آدھا جس میں فدک اور وادی القرُیٰ کے حصے تھے۔ بغیر جنگ کے حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بطور فے آپ کی تحویل میں آگیا۔ اس طرح خیبر کے قلعوں میں سے وطیع اور سلالم بھی بصورت فے حاصل ہوئے۔ خیبر کا جو حصہ جنگ کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ اس کا خمس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھا۔ (عون المعبود باب في صفایا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من الأموال، شرح حدیث 2969) 2۔ خیبر کے اموال جب تحویل میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سال کے کم از کم مقدار میں کھانے کے اخراجات کے بعد باقی سب آمدنی مصیبت زدہ افراد انسانی اور خاندانی حقوق کی ادایئگی کےلئے مختص کردی۔ (ان میں بچوں کی خبر گیری نوجوانوں یا بیوہ عورتوں کی شادی جیسی مدات شامل تھیں۔ (أبو داود، حدیث: 3012۔2970) 3۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اموال کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔ البتہ آل محمد یا نساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا خرچ اس میں سے ادا ہوگا۔ باقی صدقہ ہوگا۔ (ابوداود، حدیث: 2968۔2974) اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ان سب اموال کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کے پاس رہے گی۔ اور ان کی آمدنی بعینہ انہی مصارف پر خرچ ہوگی۔ جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔ اس فیصلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت پوری امت کا اجماع ہوا۔ (ابوداود، حدیث: 2963۔2970) چونکہ ان صفایا (خاص اموال) کو آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔ اس لئے اب ان اموال کو صفایا کی بجائے صدقۃ الرسول کہا جائےگا۔ (ابوداود، حدیث: 2968۔2970)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر ؓ کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ ﷺ اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: «في الكراع والسلاح» کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھوڑے اور ہتھیار کی فراہمی میں خرچ کرتے تھے)۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar ibn al-Khattab (RA): Malik ibn Aws al-Hadthan said: One of the arguments put forward by 'Umar was that he said that the Apostle of Allah (ﷺ) received three things exclusively to himself: Banu an-Nadir, Khaybar and Fadak. The Banu an-Nadir property was kept wholly for his emergent needs, Fadak for travellers, and Khaybar was divided by the Apostle of Allah (ﷺ) into three sections: two for Muslims, and one as a contribution for his family. If anything remained after making the contribution of his family, he divided it among the poor Emigrants.