تشریح:
1۔ اس روایت کا آخری حصہ (وکان ابو بکر۔۔۔) ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھیں اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔۔۔۔) حضرت جبیر کے قول کا حصہ ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ امام زہری کا قول ہے۔ جو غلطی سے حضرت جبیر کے قول کے ساتھ درج ہو گیا ہے۔ غالباً اسی لئے امام بخای نے اپنے صحیح میں یہ حصہ ذکر نہیں کیا۔ (فتح الباري،کتاب فرض الخمس، باب و من الدلیل علی أن الخمس للإمام) فتح الباری کی عبارت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے۔ کہ ابو دائود کا جو نسخہ حافظ ابن حجر کے سامنے تھا، اس میں اس حصے کے درمیان (ما كان النبيُّ صلي الله عليه وسلم يُعطِيهِم) جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو عطا کرتے تھے۔ موجود نہ تھے۔ البتہ حافظ ابن حجرکہتے ہیں۔ کہ ذیلعی نے اس آخری حصے کے مدرج ہونے کی وضاحت کی ہے۔ اور یونس عن لیث ہی کی سند سے اس کو زیادہ تفصیل سے روایت کیاہے۔ (فتح الباری ایضاً) (ما كان النبي ....الخ) کے الفاظ کے بغیر امام زہری کے قو ل کا مفہوم یہ بنتا ہے۔ کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ ذوی القربیٰ کو خمس کا حصہ نہیں دیتے تھے۔ اس حصے کے ساتھ اصل مفہوم یہ بنتا ہے۔ کہ زوی القربیٰ کو مجموعی طور پر اتنا نہ دیتے کہ جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرماتے تھے۔ (اگلی حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے۔) دوسری احادیث سے اس کی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ سنن نسائی میں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ وضاحت آتی ہے کہ ان کے (اوران سے پہلے حضرت ابو بکر خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے) نزدیک خمس کے اس حصے کے اخراجات کی مدیں بیوگان کی شادی، بڑے خاندان والے کی خبر گیری ذوی القربیٰ میں سے مقروضوں کے قرض کی ادایئگی تھیں۔ (فتح الباري، أیضا، سنن نسائی، أول کتاب قسم الفیء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً زیادہ خوشحالی کی وجہ سے غالبا ً مجموعی طور پر زوی القربیٰ کی ان مدات کےلئے خرچ ہونے والی رقم کی مقدار کم ہوگئی تھی۔ اس لئے اب خمس میں سے زوی القربیٰ پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت کم اور عام بیوگان یتامیٰ اور مستحقین پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت زیادہ ہوگئی تھی۔ اگلی احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اور امام زہری نے اپنے قول میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔
2۔ آیت کریمہ میں مذکور ذوی القربیٰ کے لفظ کی تشریح ازروئے سنت ان دو خاندانوں سے کی گئی۔ جو اقتصادی معاشرتی معاملات میں ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ تھے۔3۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق قبیلہ بنو عبد شمس سے ہے۔ اور حضرت جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بنونوفل سے۔ یہ دونوں خاندان بنوہاشم کے ساتھ اس طرح کا عملی اشتراک نہیں رکھتے تھے۔ جیسا بنوہاشم اور بنومطلب کے درمیان تھا۔