باب: استنجا میں شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے چھونے کی ممانعت
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Disapproval Of Touching One's Private Part With The Right Hand While Purifying)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
32.
ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ زوجہ نبی کریم ﷺ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنا دایاں ہاتھ کھانے پینے اور پہننے (جیسے کاموں) میں استعمال کیا کرتے تھے اور بایاں ہاتھ اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں۔
تشریح:
فوائد ومسائل: یہ حدیث دلیل ہے کہ دائیں ہاتھ کو فضلیت حاصل ہے۔ ایک روایت میں نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بائیں ہاتھ سے کسی سے کوئی چیز پکڑے نہ بائیں ہاتھ سے کوئی چیز پکڑائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، باب آداب الطعام ولشراب واحکامهما، حدیث :202) اس معاملے میں لوگ احتیاط نہیں کرتے اور چیز لیتے اور دیتے وقت بائیں ہاتھ کو استعمال کرتے ہیں، حالانکہ کھانے پینے کی طرح چیز لیتے اور دیتے وقت بھی صرف دایاں ہاتھ استعمال کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ سے کھائے نہ پیے، اس لیے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، باب آداب الطعام ولشراب واحکامهما، حدیث :202) اس سے معلوم ہوا کہ بائیں ہاتھ سے کھانا پینا شیطانی کام ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے مسلمان فرنگیوں کی نقالی میں بڑے فخر سے بائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے ہیں، حالانکہ کافروں کے ساتھ مشابہت کرنے پر نہایت سخت وعید ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا: ’’دائیں ہاتھ سے کھا۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو نہ ہی طاقت رکھے۔‘‘ اسے صرف تکبر نے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ اس حدیث کے راوی فرماتے ہیں اس کے بعد وہ شخص اپنا داہنا ہاتھ منہ کی طرف اٹھا ہی نہیں سکا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث :2021) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے جو بددعا فرمائی، وہ قبول ہوگئی، اس لیے بائیں ہاتھ سے کھانا پینا بہت سخت گناہ ہے۔ نظافت اور صفائی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کھانے اور پینے کے لیے صرف دایاں ہاتھ ہی استعمال کیا جائے کیونکہ استنجا وغیرہ کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم ہے تو جس ہاتھ سے انسان اپنی گندگی صاف کرتا ہے، اس ہاتھ سے کھانا پینا کتنا معیوب ہے۔ ایسی پاکیزہ عادات واطوار کو معمول زندگی بنانے کے لیے اپنی اولاد میں ابتدا ہی سے ان عادات کا اہتمام والتزام کرنا چاہیے تاکہ شرعی آداب کا حامل نیک اور صالح معاشرہ تشکیل پا سکے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وقال الحاكم: صحيح الاسناد ) . إسناده: ثنا محمد بن آدم بن سليمان المصيصي: ثنا ابن أبي زائده قال: ثتي أبو أيوب- يعني: الإفريقي- عن عاصم عن المسيب بن رافع ومعبد عن حارثة بن وهب الخزاعي قال: حدثتتي حفصة. وهذا إسناد حسن: محمد بن آدم المصيصي؛ وثقه النسافي وغيره. وعاصم: هو ابن بهدلة، وهو حسن الحديث. وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي أيوب الإفريقي- واسمه عبد الله ابن علي-؛ قال أبو زرعة:
لين، في حديثه إنكار، ليس بالمتين . وذكره ابن حبان في الثقات . وقال ابن معين: ليس به بأس ، ولخص ذلك الحافظ في التقريب فقال: صدوق يخطئ . وأمّا المنذري فقال في مختصره: فيه مقال ! فما صنع شيئا.
والحق أن مثل هذا لا ينزل حديثه عن درجة الحسن إذا لم يخالف. والحديث أخرجه الحاكم أيضا (4/109) من طريق معلى بن منصور: ثنا أبو أيوب الإفريقي... به، لكن ليس في إسناده (معبد) المقرون مع المسيب بن رافع؛ ووقع فيه تحريف في بعض الأسماء. ثمّ قال الحاكم: صحيح الإسناد ! ورده الذهبي بقوله: قلت: في سنده مجهول إ!
كذا قال! وليس بصواب؛ فإن رواته كلهم معروفون، ولعله أشكل عليه بعض الأسماء المشار إليها، فتكون وقعت في نسخته- أيضا- محرفة؛ والله أعلم. وأخرجه البيهقي (1/112- 113) من طريق أخرى عن يحيى... به مثل رواية الكتاب. والحديث رواه ابن حبان أيضا؛ كما في التلخيص (1/518) ( وهو في الموارد (1337) . ثمّ تبين لي أن فيه اختلافاً على عاصم: فرواه عنه أبو أيوب هكذا. ورواه أبان بن يزيد العطار فقال: ثنا عاصم عن معبد بن خالد عن سواء
الخزاعي عن حفصة... فأسقط من الإسناد (المسيب) قرين (معبد) ؛ وجعل(سواءًا لخزاعي) مكان (حارثة بن وهب الخزاعي) ، وهذا صحابي؛ وذاك تابعي وثقه ابن حبان، وأخرج له ابن خزيمة في صحيحه . ورواه حماد بن سلمة: ثنا عاصم بن بهدلة عن سواء الخزاعي عن حفصة... فأسقط من الإسناد (المسيب) وقرينه؛ وهما الواسطة بين (عاصم) عن (حارثة) أو (سواء) . ورواه زائدة عن عاصم عن المسيمب عن حفصة... فأثبت (المسيب) ، وأسقط الواسطة بينه وبين حفصة رضي الله عنها. وهذا اضطراب شديد، والظاهر أنه من عاصم؛ فإنه غير قوي في حفظه، وقد أخرج هذه الرويات عنه: أحمد في مسنده (6/287- 288) . وعلى كل حال؛ فالحديث صحيح بما بعده.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ زوجہ نبی کریم ﷺ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنا دایاں ہاتھ کھانے پینے اور پہننے (جیسے کاموں) میں استعمال کیا کرتے تھے اور بایاں ہاتھ اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: یہ حدیث دلیل ہے کہ دائیں ہاتھ کو فضلیت حاصل ہے۔ ایک روایت میں نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بائیں ہاتھ سے کسی سے کوئی چیز پکڑے نہ بائیں ہاتھ سے کوئی چیز پکڑائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، باب آداب الطعام ولشراب واحکامهما، حدیث :202) اس معاملے میں لوگ احتیاط نہیں کرتے اور چیز لیتے اور دیتے وقت بائیں ہاتھ کو استعمال کرتے ہیں، حالانکہ کھانے پینے کی طرح چیز لیتے اور دیتے وقت بھی صرف دایاں ہاتھ استعمال کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ سے کھائے نہ پیے، اس لیے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، باب آداب الطعام ولشراب واحکامهما، حدیث :202) اس سے معلوم ہوا کہ بائیں ہاتھ سے کھانا پینا شیطانی کام ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے مسلمان فرنگیوں کی نقالی میں بڑے فخر سے بائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے ہیں، حالانکہ کافروں کے ساتھ مشابہت کرنے پر نہایت سخت وعید ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا: ’’دائیں ہاتھ سے کھا۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو نہ ہی طاقت رکھے۔‘‘ اسے صرف تکبر نے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ اس حدیث کے راوی فرماتے ہیں اس کے بعد وہ شخص اپنا داہنا ہاتھ منہ کی طرف اٹھا ہی نہیں سکا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث :2021) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے جو بددعا فرمائی، وہ قبول ہوگئی، اس لیے بائیں ہاتھ سے کھانا پینا بہت سخت گناہ ہے۔ نظافت اور صفائی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کھانے اور پینے کے لیے صرف دایاں ہاتھ ہی استعمال کیا جائے کیونکہ استنجا وغیرہ کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم ہے تو جس ہاتھ سے انسان اپنی گندگی صاف کرتا ہے، اس ہاتھ سے کھانا پینا کتنا معیوب ہے۔ ایسی پاکیزہ عادات واطوار کو معمول زندگی بنانے کے لیے اپنی اولاد میں ابتدا ہی سے ان عادات کا اہتمام والتزام کرنا چاہیے تاکہ شرعی آداب کا حامل نیک اور صالح معاشرہ تشکیل پا سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حارثہ بن وہب خزاعی کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حفصہ ؓ نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دائیں ہاتھ کو کھانے، پینے اور کپڑا پہننے کے لیے استعمال کرتے تھے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو ان کے علاوہ دوسرے کاموں کے لیے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hafsah, Ummul Mu'minin (RA): The Prophet (ﷺ) used his right hand for taking his food and drink and used his left hand for other purposes.