Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: The View That Atonement Is Necessary If A Man Vows To Disobey Allah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3303.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کی بہن نے نذر مانی کہ پیدل حج کرے گی، اور اس میں اس کی ہمت نہیں تھی۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ عزوجل تیری بہن کے پیدل چلنے سے بے پروا ہے، اسے چاہیئے کہ سوار ہو اور ایک اونٹنی قربانی دے۔“
تشریح:
3293 نمبر حدیث میں یہ روایت گزری ہے۔ اس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے تین دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا۔ اور اس میں روزوں کی جگہ قربانی کرنے کا ذکر ہے۔ جس میں روزوں کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے۔ اور یہ قربانی والی روایت صحیح ہے۔ شیخ البانی نے بھی الارواء (221تا 218/8) میں ا س کو محفوظ قرار دیا ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کی بہن نے نذر مانی کہ پیدل حج کرے گی، اور اس میں اس کی ہمت نہیں تھی۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ عزوجل تیری بہن کے پیدل چلنے سے بے پروا ہے، اسے چاہیئے کہ سوار ہو اور ایک اونٹنی قربانی دے۔“
حدیث حاشیہ:
3293 نمبر حدیث میں یہ روایت گزری ہے۔ اس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے تین دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا۔ اور اس میں روزوں کی جگہ قربانی کرنے کا ذکر ہے۔ جس میں روزوں کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے۔ اور یہ قربانی والی روایت صحیح ہے۔ شیخ البانی نے بھی الارواء (221تا 218/8) میں ا س کو محفوظ قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ عقبہ بن عامر ؓ کی بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور پیدل جانے کی طاقت نہیں رکھتی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے (عقبہ بن عامر ؓ سے) کہا: ”اللہ تعالیٰ کو تمہاری بہن کے پیدل جانے کی پرواہ نہیں، (تم اپنی بہن سے کہو کہ) وہ سوار ہو جائیں اور (نذر کے کفارہ کے طور پر) ایک اونٹ کی قربانی دے دیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The sister of 'Uqbah ibn 'Amir took a vow that she would perform hajj on foot, and she was unable to do so. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Allah is not in need of the walking of your sister. She must ride and offer a sacrificial camel.