Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Fulfilling A Vow On Behalf Of One Who Had Died)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3309.
سیدنا بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا: میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی صدقہ (عطیہ) کی تھی اور اب وہ (والدہ) فوت ہو گئی ہے اور لونڈی ترکے میں چھوڑ گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا ثواب ثابت ہوا اور وہ لونڈی وراثت میں تجھے دوبارہ مل گئی۔“ اس نے بتایا کہ والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے بھی ہیں۔ آگے مذکورہ بالا حدیث عمرو بن عوف کی مانند بیان کی۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا: میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی صدقہ (عطیہ) کی تھی اور اب وہ (والدہ) فوت ہو گئی ہے اور لونڈی ترکے میں چھوڑ گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا ثواب ثابت ہوا اور وہ لونڈی وراثت میں تجھے دوبارہ مل گئی۔“ اس نے بتایا کہ والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے بھی ہیں۔ آگے مذکورہ بالا حدیث عمرو بن عوف کی مانند بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا: میں نے ایک باندی اپنی والدہ کو دی تھی، اب وہ مر گئیں اور وہی باندی چھوڑ گئیں ہیں، آپ ﷺ ”تمہیں تمہارا اجر مل گیا اور باندی بھی تمہیں وراثت میں مل گئی۔“ اس نے کہا: وہ مر گئیں اور ان کے ذمہ ایک مہینے کا روزہ تھا، پھر عمرو (عمرو بن عون) کی حدیث (نمبر ۳۳۰۸) کی طرح ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Buraidah: A woman came to the Prophet (ﷺ) and said: I gave a slave girl to my mother, but she died and left the salve-girl. He said: Your reward became certain for you, and she (the slave-girl) returned to you as inheritance. She said: She died and one month's fast was due from her. He (the narrator) then mentioned the tradition similar to the one mentioned by 'Amr b. 'Awn.