Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Tayammum During Residency)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
331.
جناب نافع نے ابن عمر ؓ سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ پاخانے سے فارغ ہو کر آئے تو آپ کو ایک آدمی ملا۔ اس وقت آپ بئرجمل کے پاس تھے۔ اس نے آپ ﷺ کو سلام کہا مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کو جواب نہ دیا، حتیٰ کہ دیوار کے پاس آئے اور دیوار پر اپنا ہاتھ رکھا، پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا، پھر آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔
تشریح:
مذکورہ دو روایات میں سے بھی دو مرتبہ ہاتھ مارنے والی روایت منکر اورضعیف ہے۔ اور ایک مرتبہ ہاتھ مارنے والی صحیح۔ اس لیے قابل عمل حدیث یہی ہے۔
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب نافع نے ابن عمر ؓ سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ پاخانے سے فارغ ہو کر آئے تو آپ کو ایک آدمی ملا۔ اس وقت آپ بئرجمل کے پاس تھے۔ اس نے آپ ﷺ کو سلام کہا مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کو جواب نہ دیا، حتیٰ کہ دیوار کے پاس آئے اور دیوار پر اپنا ہاتھ رکھا، پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا، پھر آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ دو روایات میں سے بھی دو مرتبہ ہاتھ مارنے والی روایت منکر اورضعیف ہے۔ اور ایک مرتبہ ہاتھ مارنے والی صحیح۔ اس لیے قابل عمل حدیث یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پاخانہ سے فارغ ہو کر آئے تو بئر جمل کے پاس ایک آدمی کی ملاقات آپ سے ہو گئی، اس نے آپ کو سلام کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مارا پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) came from the privy. A man met him near Bir Jamal and saluted him. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) did not return the salutation until he came to a wall and placed his hands on the wall and wiped his face and hands; he then returned the man's salutation.