باب: استنجا میں شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے چھونے کی ممانعت
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Disapproval Of Touching One's Private Part With The Right Hand While Purifying)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
34.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نبی کریم ﷺ سے (ایک دوسری سند سے بھی) مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کرتی ہیں۔
تشریح:
فائدہ: حدیث 33 اور 34 ضعیف ہیں۔ تاہم حدیث 32 صحیح ہے اور اس سے یہ مسئلہ ثابت ہے جیسا کہ اس کے فوائد کی تفصیل گزری۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكلذ ا قال النووي، وهو على شرط مسلم) . إسناده: ثنا أبو توبة الربيع بن نافع: ثني عيسى بن يونس عن ابن أبي عَرُوبة (كتب شيخنا رحمه الله لنفسه هنا: يراجع ترجمة سعيد بن أبي عروبة؛ فإن ابن حجر قال فيه: كئير التدليس واختلط . فإذا صح هذا؛ فيكون في الحديث علة، وهي عنعنته؛ لاسيما وقد أدخل بينه وبين أبي معشر رجلاً في رواية لأحمد .) عن أبي معشر عن إبراهيم عن عائشة. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي معشر- وهو زياد بن كليب-؛ وهو من رجال مسلم وحده. لكن قال المنذري رقم (31) : إبراهيم لم يسمع من عائشة؛ فهو منقطع ؛ وكذا قال الحافظ في التلخيص (1/518) . ولذلك فقد ساقه المؤلف موصولأ عقب هذا؛ فقال: ثنا محمد بن حاتم بن بزبع: ثنا عبد الوهاب بن عطاء عن سعيد عن أبي معشر عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة عن النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... بمعناه. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم. وقال العرافي في طرح التثريب (2/71) : إسناده صحيح . والحديث أخرجه الإمام أحمد (6/265) : ثنا عبد الوهاب... به. ورواه مغيرة عن إبراهيم عن عائشة: أخرجه أحمد (6/170) . ورواه محمد بن أبي عدي عن سعيد عن رجل عن أبي معشر عن إبراهيم عن عائشة: أخرجه أحمد أيضا (6/265) ، والبيهقي (1/113) .
والصواب عندي الرواية الموصولة؛ لأ نها زيادة من ثقة، وهما مقبولة. والحديث قال النووي في المجموع (2/108) :
رواه أحمد وأبو داود بإسناد صحيح . ورواه مسروق عنها بنحوه؛ وسيأتي إن شاء الله رقم (...) في (اللباس)
[ باب في الانتعال].
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘