مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3404.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ اور معادمہ سے منع فرمایا ہے۔ ایک راوی نے (معاومہ کی بجائے) «بيع السنين» کہا۔ آپ ﷺ نے استثناء کر لینے سے بھی منع فرمایا ہے۔ البتہ عرایا کی رخصت دی ہے۔
تشریح:
توضیحات (محاقله) اس کی تعریف کئی انداز میں کی گئی ہے۔ (الف) معلوم اور متعین غلے کے بدلے کھڑی کھیتی کی بیع کردینا۔ (ب) جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرمائی۔ غلہ ابھی بالیوں میں ہی ہو اور اس کی بیع کردینا یہ صحیح ترین تعریف ہے۔ (مذابنۃ) درختوں پرلگی کھجوروں یا بیلوں پر لگے انگوروں کو اس جنس کے متعین پھل سے فروخت کردینا یہ صحیح ترین تعریف ہے۔ (الصحیحین) (مخابرہ) مزارعت کے ہم معنی ہے۔ بلکہ مساقاۃ مزارعۃ اور مخابرہ تینوں ایک ہی معنی میں ہیں۔ (بیع المسنین/معاومہ کسی باغ یا درختوں کے متعین پھل کو کئی سالوں کےلئے فروخت کردینا۔ اس صورت میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا۔ کہ پیدا وار کیسی ہوگی۔ بیماریاں لگیں گی یا نہ لگیں گی وغیرہ۔ (عرابا) کا بیان تفصیل سے پیچھے گزرا ہے۔ (حدیث 3362) (استثناء) باغ مع پھل فروخت کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم بھی اس میں سے کھاتے رہیں گے۔ یا تین درخت یا پانچ درخت ہم فروخت نہیں کرتے۔ مگر ان درختوں کی تعین نہ کی جائے تو اس طرح غیر معین اور مجہول مقدار یا درختوں کا استثناء ناجائز ہے۔ معلوم اور متعین ہو تو کوئی حرج نہیں۔
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ اور معادمہ سے منع فرمایا ہے۔ ایک راوی نے (معاومہ کی بجائے) «بيع السنين» کہا۔ آپ ﷺ نے استثناء کر لینے سے بھی منع فرمایا ہے۔ البتہ عرایا کی رخصت دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
توضیحات (محاقله) اس کی تعریف کئی انداز میں کی گئی ہے۔ (الف) معلوم اور متعین غلے کے بدلے کھڑی کھیتی کی بیع کردینا۔ (ب) جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرمائی۔ غلہ ابھی بالیوں میں ہی ہو اور اس کی بیع کردینا یہ صحیح ترین تعریف ہے۔ (مذابنۃ) درختوں پرلگی کھجوروں یا بیلوں پر لگے انگوروں کو اس جنس کے متعین پھل سے فروخت کردینا یہ صحیح ترین تعریف ہے۔ (الصحیحین) (مخابرہ) مزارعت کے ہم معنی ہے۔ بلکہ مساقاۃ مزارعۃ اور مخابرہ تینوں ایک ہی معنی میں ہیں۔ (بیع المسنین/معاومہ کسی باغ یا درختوں کے متعین پھل کو کئی سالوں کےلئے فروخت کردینا۔ اس صورت میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا۔ کہ پیدا وار کیسی ہوگی۔ بیماریاں لگیں گی یا نہ لگیں گی وغیرہ۔ (عرابا) کا بیان تفصیل سے پیچھے گزرا ہے۔ (حدیث 3362) (استثناء) باغ مع پھل فروخت کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم بھی اس میں سے کھاتے رہیں گے۔ یا تین درخت یا پانچ درخت ہم فروخت نہیں کرتے۔ مگر ان درختوں کی تعین نہ کی جائے تو اس طرح غیر معین اور مجہول مقدار یا درختوں کا استثناء ناجائز ہے۔ معلوم اور متعین ہو تو کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ۱؎ مزابنہ۲؎ مخابرہ اور معاومہ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔ مسدد کی روایت میں «عن حماد» ہے اور ابوزبیر اور سعید بن میناء دونوں میں سے ایک نے معاومہ کہا اور دوسرے نے «بيع السنين» کہا ہے، پھر دونوں راوی متفق ہیں اور استثناء کرنے۴؎ سے منع فرمایا ہے، اور عرایا ۵؎ کی اجازت دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلہ سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں۔ ۲؎: درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک پھل سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔ ۳؎: معاومہ اور بیع سنین ایک ہی معنی میں ہے یعنی کئی سال تک کا میوہ بیچنا۔ ۴؎: سارے باغ یا کھیت کو بیچ دینے اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینے سے منع کیا ہے۔ ۵؎: عرایا یہ ہے کہ مالک باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین کو کھانے کے لئے مفت دے دے اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین سے خریدلے اور اس کے بدلے تر یا خشک میوہ اس کے حوالے کر دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir b. 'Abd Allah (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) forbade muhaqalah, muzabanah, mukhabarah, and mu'awanah. One of the two narrators from Hammad said the word mu'awamah, and other said: "selling many years ahead". The agreed version then goes: and thunya, but gave license for 'araya.