Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Times Of The Prophet's (saws) Prayers And How He Used To Pray Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
397.
جناب محمد بن عمرو (محمد بن عمرو بن حسن بن علی بن ابی طالب) کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا جابر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نمازوں کے اوقات پوچھے تو انہوں کہا کہ آپ ظہر کی نماز سخت گرمی کے وقت میں پڑھا کرتے تھے (یعنی زوال کے بعد اول وقت میں پڑھتے تھے) اور عصر اس وقت ادا کرتے تھے جب کہ سورج زندہ ہوتا (یعنی اس میں چمک اور تپش باقی ہوتی) اور مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہو جاتا اور عشاء میں جب لوگ پہلے جمع ہو جاتے تو جلدی کرتے اور جب کم ہوتے تو تاخیر کر لیتے اور فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔
تشریح:
اہل بیت نبوی ہم تمام مسلمانوں کے محبوب ومکرم افراد ہیں۔ ان پر اللہ کی بے حد وبے شمار رحمتیں ہوں۔ ان کا خاندان کرہ ارضی پر بے مثل وبے مثال خاندان ہے۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اسوہ رسول کے حامل اور مبلغ تھے جیسے کہ یہ حدیث حضرت علی کے پڑپوتے جناب محمدبن عمرو نے نقل کی ہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب محمد بن عمرو (محمد بن عمرو بن حسن بن علی بن ابی طالب) کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا جابر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نمازوں کے اوقات پوچھے تو انہوں کہا کہ آپ ظہر کی نماز سخت گرمی کے وقت میں پڑھا کرتے تھے (یعنی زوال کے بعد اول وقت میں پڑھتے تھے) اور عصر اس وقت ادا کرتے تھے جب کہ سورج زندہ ہوتا (یعنی اس میں چمک اور تپش باقی ہوتی) اور مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہو جاتا اور عشاء میں جب لوگ پہلے جمع ہو جاتے تو جلدی کرتے اور جب کم ہوتے تو تاخیر کر لیتے اور فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اہل بیت نبوی ہم تمام مسلمانوں کے محبوب ومکرم افراد ہیں۔ ان پر اللہ کی بے حد وبے شمار رحمتیں ہوں۔ ان کا خاندان کرہ ارضی پر بے مثل وبے مثال خاندان ہے۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اسوہ رسول کے حامل اور مبلغ تھے جیسے کہ یہ حدیث حضرت علی کے پڑپوتے جناب محمدبن عمرو نے نقل کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن عمرو سے روایت ہے (اور وہ حسن بن علی بن ابی طالب ؓ کے لڑکے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جابر ؓ سے نبی اکرم ﷺ کی نماز کے اوقات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے تھے، عصر ایسے وقت پڑھتے کہ سورج زندہ رہتا، مغرب سورج ڈوب جانے پر پڑھتے، اور عشاء اس وقت جلدی ادا کرتے جب آدمی زیادہ ہوتے، اور جب کم ہوتے تو دیر سے پڑھتے، اور فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے پہلے والے باب میں مطلق وقت کا بیان تھا اور اس باب میں مستحب اوقات کا بیان ہے جن میں نماز پڑھنی افضل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muhammad b. 'Amr b. al-Hasan reported: We asked Jabir about the time of the prayer of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). He said: He used to offer the Zuhr prayer in the midday heat, the 'Asr prayer when the sun was bright, the Maghrib prayer when the sun had completely set, the Isha prayer early when many people were present, but late if there were few, and the Fajr prayer in the darkness (of the dawn).