Abu-Daud:
Clothing (Kitab Al-Libas)
(Chapter: What Has Been Reported Regarding Khazz)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4039.
عبدالرحمٰن بن غنم اشعری نے کہا کہ اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”یقیناً میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو خز اور ریشم کو حلال سمجھیں گے۔“ پھر کچھ بیان کیا۔ اس کے بعد فرمایا: ”کئی ان میں سے قیامت تک کے لیے بندر بنا دیے جائیں گے اور کئی خنزیر۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺ میں سے بیس یا زیادہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ خز پہنتے تھے۔ ان میں سیدنا انس بن مالک اور براء بن عازب ؓ کا نام بھی ہے۔
تشریح:
1: اس حدیث میں مروی ہے لفظ الخز (خا اور زا دونوں منقوط کے) تین معانی ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ خالص ریشم مردوں کے لئے بالاجماع حرام ہے۔ الخزوالحریر کے مابین عطف تفسیر یا نوعیت کے معنی میں ہیں۔ مخلوط یا کسی دوسری نوعیت کا ہوتو اس سے احترازافضل ہے، تاکہ غیر مسلوں اور مرفہ الحال لوگوں سے مشابہت ہو۔ 2: اس لفظ الخز کی ایک روایت الحر بھی ہے، یعنی حا مکسور اور را دونوں بلانقطہ۔ اس کے معنی ہیں: فرج یعنی عورت کے لئے شرم گاہ، مفہوم یہ ہوا کہ وہ لوگ زنا کاری اور ریشم کے لباس کو حلال جانیں گے۔ 3: ایسے لوگوں کو مسخ کیا جانا یعنی ان کی شکلوں کا بدل جانا اگر حقیقتا ہو تو اللہ عزوجل کے لئے کوئی مشکل نہیں اور اگر معنا مراد ہو تو موجودہ حالات میں اباحیت پسند لوگوں میں بندروں اور سؤروں کی خصوصیات مشاہدہ کی جا سکتی ہیں کہ لوگ غیر مسلموں کی نقالی میں بے باک اور بے عزتی اور دیوثیت مین بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
پہلے زمانے میں شہروں میں بالخصوص مشرق وسطی میں مخصوص انداز سے اجتماعی غسل خانے بنائے جاتے تھے جہاں موسم کے مطابق پانی وغیر ہ مہیا ہوتا تھا اوربعض ایسی بیماریاں جو مالش اور غسل قابل علاج ہوتی تھیں ان کاعلاج بھی کیا جاتا تھا ان میں مرد عورتیں سبھی آتے تھے اور پردے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اسلام نے مرد وزن کے اختلاط اور بے پردگی کو حرام قراردیا اور ان اجتماعی غسل کی بابت بھی اصلاحی ہدایات بیان فرمائیں ۔ ذیل کے ابواب اور احادیث کا تعلق انہی اصلاحات سے ہے ۔
کتاب اللباس
اسلام شرم وحیااورعفت وعصمت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ شرم وحیا کی حفاظت کے لئے اسلام نے نظام ستر وحجاب انسانیت کو دیا ہے ،لباس جہاں زیب وزینت کا باعث ہے وہاں شرم وحیا کی حفاظت میں موثرترین ہتھیار بھی ہے لہذااسلام نے اپنے ماننے والوں کو ان مقاصد کے حصول کے لئےلباس پہننے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری ہے کہ(يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)(الاعراف:31)"اے اولاد آدم تم ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو" اس لئے ہر وہ لباس جو شرم وحیاکی ضمانت فراہم کرے اور حسن وجمال کا باعث بنے اس کو پہننے کی اجازت دی گئی ہے ۔ ان دو خوبیوں والے لباس کی بدولت مسلم امت دوسرے لوگوں پر ممتاز دکھائی دیتی ہے ۔ دوسری کوئی تہذیب یا مذہب اسلامی نظام حیا اور لباس جیسا منفرد اور اعلی نظام پیش کرنے سے قاصر ہیں ،ارشاد باری تعالی ہے (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ)(الاعراف:26)"اے آدم بے شک ہم نے تمہارے لئے ایسا لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہیں چھپاتا ہے اورزینت کا باعث بھی ہےاور تقوی کا لبا س اس سے بڑھ کر ہے ۔ "
محسن انسانیت ،رحمت دوعالم ﷺ نے اپنی امت کو لباس سے متعلق شاندار آداب سکھائے ہیں جنہیں اختیار کرکے مسلمان حسن وآرائش،شرم وحیا کی حفاظت اوراخروی سعادت حاصل کرسکتا ہے ،ان سنہری آداب کو ملحوظ رکھنا ہر مسلمان کی خوش بختی ہے جبکہ ان آداب کوترک کرکے اقوام مغرب کی نفس پرستی کی پیروی کرنا اور ان جیسا لباس تن کرنا،ان جیسی شکل وشباہت اختیار کرنا ،سراسرگمراہی اور ضلالت ہے ۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو محفوظ فرمائے ۔ (آمین )
تاجدارمدینہ ﷺ کی زبان اقدس سے ارشاد ہونے والےچندآداب درج دیل ہیں :
1۔ مسلمانوں کا لباس دو بنیادی ضروریات کے لئے ہوتاہے ،ستر پوشی اور زینت کا اظہار ،لہذاایسا لباس جو فخرومباہات یا غروروتکبر کی علامت سمجھاجاتا ہو یا جس سے ستر پوشی کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو اسے پہننا غلط اور ناجائز ہوگا ۔ ارشاد نبوی ہے [كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ](سنن ابن ماجه ،اللباس،حديث:3205 ،وعلقه البخارى فى اول كتاب اللباس مسند احمد:2/182)"کھائو ،پیو ،پہنو اور صدقہ خیرات کرو مگر اسراف اور تکبرکیے بغیر "
2۔مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس پہننا حرام ہے جبکہ عورتوں کے لیے یہ دونوں چیزیں حلال ہیں لہذاوہ اپنی زیب وزینت کے لئے استعمال کرسکتی ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے[حُرِّمَ لِبَاسُ الحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ](جامع ترمذى ،اللباس ،باب ما جاء فى الحرير والذهب للرجال ،حديث:1720) "میری امت کے مردوں پر ریشمی لباس اور سونا پہننا بھی حرام کردیاہے اور عورتوں کے لئے حلال ہے "
3- لباس کو اتنا لمبا رکھنا کہ وہ زمین پر گھسٹتاہے یہ تکبر اور بڑائی کی علامت ہے ، لہذاایسا لباس پہننا حرام قراردے دیا گیا ہے[مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ] (صحيح البخارى،اللباس ،باب ما اسفل من الكعبين فهو فى النار،حديث 5787)"جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جائے وہ جہنم میں لے جاتا ہے "
4-شریعت اسلامی نے اپنے پیروکاروں کے لئے سفید لباس کو پسند کیا جو وقار کی علامت ہے ،اردشاد نبوی ہے[البَسُوا البَيَاضَ فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ](جامع الترمذى،الادب ،باب ماجاء فى البياض،حديث:2810)"سفید لباس پہنو یہ زیادہ پاک اور صاف ہوتا ہے اور اپنے مردوں کو اسی میں کفن دو"
5۔مسلمان عورتوں کو ایسا لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے جو زیادہ تر با حیا اور زیادہ باوقار ہو ، لہذا مغرب زدہ فیشن کی پیروی میں تنگ وچست ،باریک اور شفاف لباس پہننا مسلمان عورتوں کے لئے جائز نہیں ۔ ایسا لباس پہننے والوں کوخصوصا رسول اکرم ﷺ نے ڈرایاہے ۔ ارشادگرامی ہے’’ جہنم کے دو گروہ میں نے نہیں دیکھے(یعنی ابھی نمودار نہیں ہوئے)ان میں سے ایک گروہ وہ عورتیں ہیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی (نہایت باریک اور شفاف لباس زین تن کریں گی جن سے اعضا ءواضح نظر آئیں گے )یہ عورتیں جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی ،حالانکہ اس کی خوشبو دور دور تک آئے گی ۔
6۔اسلامی لباس کا ایک اہم اصول مردوزن کے لباس میں نمایاں فرق کاہونا ہے ،لہذاجو مرد عورتوں جیسا یا عورتیں مردوں جیسا لباس ان کے لئے سخت وعیدداردہے ۔
7۔سونے کی انگھوٹھی ،چین یا گھڑی وغیرہ پہننامردوں کےلئے حرام ہے ۔ البتہ چاندی استعمال کرسکتا ہے۔
8۔ایسا تنگ اور بندلباس پہننا جس میں بوقت ضرورت ہاتھ باہر نہ نکل سکیں منع ہے ۔
9۔ایک جوتا پہن کر چلنا منع ہے ۔
10۔لباس یا جوتا وغیر ہ پہنتے وقت دائیں طرف سے پہننا شروع کرے اور اتارٹے وقت بائیں جانب سے شروع کرے ۔
11۔نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالی کی نعمت کے شکر کے اظہار کے لئے دعا پڑھنا چاہیے ۔
12۔مسلمان بھائی کو نیا لباس پہنے دیکھ کر مسنون دعا دینی چاہیے ۔
13۔کنگھی کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا اور سرکے درمیان سے مانگ نکالنا سنت ہے ۔
عبدالرحمٰن بن غنم اشعری نے کہا کہ اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”یقیناً میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو خز اور ریشم کو حلال سمجھیں گے۔“ پھر کچھ بیان کیا۔ اس کے بعد فرمایا: ”کئی ان میں سے قیامت تک کے لیے بندر بنا دیے جائیں گے اور کئی خنزیر۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺ میں سے بیس یا زیادہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ خز پہنتے تھے۔ ان میں سیدنا انس بن مالک اور براء بن عازب ؓ کا نام بھی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1: اس حدیث میں مروی ہے لفظ الخز (خا اور زا دونوں منقوط کے) تین معانی ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ خالص ریشم مردوں کے لئے بالاجماع حرام ہے۔ الخزوالحریر کے مابین عطف تفسیر یا نوعیت کے معنی میں ہیں۔ مخلوط یا کسی دوسری نوعیت کا ہوتو اس سے احترازافضل ہے، تاکہ غیر مسلوں اور مرفہ الحال لوگوں سے مشابہت ہو۔ 2: اس لفظ الخز کی ایک روایت الحر بھی ہے، یعنی حا مکسور اور را دونوں بلانقطہ۔ اس کے معنی ہیں: فرج یعنی عورت کے لئے شرم گاہ، مفہوم یہ ہوا کہ وہ لوگ زنا کاری اور ریشم کے لباس کو حلال جانیں گے۔ 3: ایسے لوگوں کو مسخ کیا جانا یعنی ان کی شکلوں کا بدل جانا اگر حقیقتا ہو تو اللہ عزوجل کے لئے کوئی مشکل نہیں اور اگر معنا مراد ہو تو موجودہ حالات میں اباحیت پسند لوگوں میں بندروں اور سؤروں کی خصوصیات مشاہدہ کی جا سکتی ہیں کہ لوگ غیر مسلموں کی نقالی میں بے باک اور بے عزتی اور دیوثیت مین بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں مجھ سے ابوعامر یا ابو مالک نے بیان کیا اور اللہ کی قسم انہوں نے جھوٹ نہیں کہا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ میری امت میں کچھ لوگ ہوں گے جو خز اور حریر (ریشم) کو حلال کر لیں گے پھر کچھ اور ذکر کیا، فرمایا: ”ان میں سے کچھ قیامت تک کے لیے بندر بنا دیئے جائیں گے اور کچھ سور۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بیس یا اس سے زیادہ لوگوں نے خز پہنا ہے، ان میں سے انس اور براء بن عازب ؓ بھی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu 'Amir or Abu Malik: Abdur Rahman ibn Ghanam al-Ash'ari said: Abu 'Amir or Abu Malik told me--I swear by Allah another oath that he did not believe me that he heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: There will be among my community people who will make lawful (the use of) khazz and silk. Some of them will be transformed into apes and swine.