Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For 'Asr Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
411.
جناب عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، وہ سیدنا زید بن ثابت ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز دوپہر کے وقت میں پڑھا کرتے تھے اور اصحاب رسول کے لیے اس نماز سے بڑھ کر اور کوئی نماز سخت نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى) ”نمازوں کی پابندی کرو اور درمیانی نماز کی۔“ (زید بن ثابت نے) کہا: اس سے پہلے دو نمازیں ہیں (یعنی عشاء اور فجر، رات کی) اور اس کے بعد بھی دو نمازیں ہیں (یعنی عصر اور مغرب، دن کی)۔
تشریح:
یہ توجیہ حضرت زید بن ثابت کا اپنا اجتہاد ہے کہ اس سے نماز ظہر مراد ہے۔ دیگر صحیح احادیث سے نماز عصر ثابت ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہےکہ وہ احادیث ان کےعلم میں نہ ہوں۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، وہ سیدنا زید بن ثابت ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز دوپہر کے وقت میں پڑھا کرتے تھے اور اصحاب رسول کے لیے اس نماز سے بڑھ کر اور کوئی نماز سخت نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى) ”نمازوں کی پابندی کرو اور درمیانی نماز کی۔“ (زید بن ثابت نے) کہا: اس سے پہلے دو نمازیں ہیں (یعنی عشاء اور فجر، رات کی) اور اس کے بعد بھی دو نمازیں ہیں (یعنی عصر اور مغرب، دن کی)۔
حدیث حاشیہ:
یہ توجیہ حضرت زید بن ثابت کا اپنا اجتہاد ہے کہ اس سے نماز ظہر مراد ہے۔ دیگر صحیح احادیث سے نماز عصر ثابت ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہےکہ وہ احادیث ان کےعلم میں نہ ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر دوپہر کو پڑھا کرتے تھے، اور کوئی نماز رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر اس سے زیادہ سخت نہ ہوتی تھی، تو یہ آیت نازل ہوئی: (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى) ۱؎ زید نے کہا: بیشک اس سے پہلے دو نماز ہیں (ایک عشاء کی، دوسری فجر کی) اور اس کے بعد دو نماز ہیں (ایک عصر کی دوسری مغرب کی)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: نماز وسطی سے مراد کون سی نماز ہے اس سلسلے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں، زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے عصر مراد ہے، اکثر علماء کا رجحان اسی جانب ہے، واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Zaid b. Thabit (RA) said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to offer the Zuhr prayer in midday heat; and no prayer was harder on the Companions of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) that this one. Hence the revelation came down: "Be guardians of your prayers, and of the midmost prayer" (2:238). He (the narrator) said: There are two prayers before it and two prayers after it.