Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For The Later Isha')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
420.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ہم نماز عشاء کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے رہے۔ آپ ﷺ اس وقت تشریف لائے جب رات کا تہائی حصہ گزر چکا تھا یا اس سے بھی زیادہ۔ نہ معلوم آپ ﷺ کسی کام میں مشغول ہو گئے تھے یا کوئی اور بات تھی۔ آپ ﷺ جب تشریف لائے تو فرمایا ”کیا تم اس نماز کا انتظار کر رہے ہو؟ اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں ان کو یہ نماز اسی وقت پڑھاتا۔“ پھر آپ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا تو اس نے اقامت کہی۔
تشریح:
انتظار کرانے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ عبادت کے ’’انتظار کا ثواب،، حاصل کرلیں اور ان کو تاخیر کی فضیلت بھی بتادی جائے۔ بہر حال اس سے عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ہم نماز عشاء کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے رہے۔ آپ ﷺ اس وقت تشریف لائے جب رات کا تہائی حصہ گزر چکا تھا یا اس سے بھی زیادہ۔ نہ معلوم آپ ﷺ کسی کام میں مشغول ہو گئے تھے یا کوئی اور بات تھی۔ آپ ﷺ جب تشریف لائے تو فرمایا ”کیا تم اس نماز کا انتظار کر رہے ہو؟ اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں ان کو یہ نماز اسی وقت پڑھاتا۔“ پھر آپ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا تو اس نے اقامت کہی۔
حدیث حاشیہ:
انتظار کرانے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ عبادت کے ’’انتظار کا ثواب،، حاصل کرلیں اور ان کو تاخیر کی فضیلت بھی بتادی جائے۔ بہر حال اس سے عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کے لیے رسول اللہ ﷺ کی آمد کا انتظار کرتے رہے، آپ ﷺ اس وقت تشریف لائے جب تہائی رات یا اس سے زیادہ گزر گئی، ہم نہیں جانتے کہ کسی چیز نے آپ ﷺ کو مشغول کر رکھا تھا یا کوئی اور بات تھی، جس وقت آپ ﷺ نکل کر آئے تو فرمایا: ”کیا تم لوگ اس نماز کا انتظار کر رہے ہو؟ اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں انہیں یہ نماز اسی وقت پڑھاتا“ پھر آپ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔
حدیث حاشیہ:
انتظار کرانے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ عبادت کے انتظار کا ثواب حاصل کر لیں اور ان کو تاخیر کی فضیلت بھی بتا دی جائے ۔ بہرحال اس سے عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abd Allah b. 'Umar said: We remained one night waiting for the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) to offer the Isha prayer. He came out to us when one-third of the night has passed or even after it. We did not know whether anything kept him occupied or there was some other matter. When he came out, he said: Are you waiting for this prayer? Were it not that it would impose a burden on my people, I would normally pray with them at this time. He then gave orders to the mu'adhdhin who declared that the time of the prayer had come.