Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Preserving The Prayer Times)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
425.
جناب عبداللہ بن صنابحی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ابو محمد (انصاری صحابی) کا خیال ہے کہ وتر واجب ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نے (سنا تو) کہا: ابو محمد نے غلط کہا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے ”پانچ نمازیں اللہ نے فرض کی ہیں، جو ان کا وضو عمدہ بنائے اور انہیں ان کے اوقات پر ادا کرے، ان کے رکوع اور خشوع کامل رکھے، تو ایسے شخص کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا، اور جو یہ نہ کرے تو اس کے لیے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے تو معاف کر دے اور اگر چاہے تو عذاب دے۔“
تشریح:
(1) ابومحمد ’’صحابی ہیں۔ ان کے نام کی تعیین میں اختلاف ہے۔ مسعود بن اوس زید بن اصرم یا مسعود بن زید سبیع یا قیس بن عامرخولانی یا مسعود بن یزید سعد بن اوس قیس بن عبایہ وغیرہ کئی نام بیان ہوئے ہیں۔ (الإصابة لابن حجر) (2) حضرت عبادہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’وتر پانچ نمازوں کی طرح فرض اورواجب نہیں ہے۔،، مگر مسنون ومؤکد ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جیسے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں بھی وتر نہ چھوڑتے تھے۔ (3) کامل ومقبول نماز کے لیے تمام سنن وواجبات کو جاننا اور ان پرعمل کرنا چاہیے یعنی مسنون کامل وضو، مشروع افضل وقت، اعتدال ارکان اور حضور قلب وغیرہ۔ (4) اللہ کے وعدے، جواس کی شریعت میں بیان کئے گئے ہیں، اعمال حسنہ ہی پرموقوف ہیں۔ (5) ان کے بغیر بھی اللہ جسے چاہے معاف فرما دے یاعذاب دے اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ (لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ)(الأنبیا ء: 23)
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب عبداللہ بن صنابحی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ابو محمد (انصاری صحابی) کا خیال ہے کہ وتر واجب ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نے (سنا تو) کہا: ابو محمد نے غلط کہا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے ”پانچ نمازیں اللہ نے فرض کی ہیں، جو ان کا وضو عمدہ بنائے اور انہیں ان کے اوقات پر ادا کرے، ان کے رکوع اور خشوع کامل رکھے، تو ایسے شخص کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا، اور جو یہ نہ کرے تو اس کے لیے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے تو معاف کر دے اور اگر چاہے تو عذاب دے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ابومحمد ’’صحابی ہیں۔ ان کے نام کی تعیین میں اختلاف ہے۔ مسعود بن اوس زید بن اصرم یا مسعود بن زید سبیع یا قیس بن عامرخولانی یا مسعود بن یزید سعد بن اوس قیس بن عبایہ وغیرہ کئی نام بیان ہوئے ہیں۔ (الإصابة لابن حجر) (2) حضرت عبادہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’وتر پانچ نمازوں کی طرح فرض اورواجب نہیں ہے۔،، مگر مسنون ومؤکد ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جیسے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں بھی وتر نہ چھوڑتے تھے۔ (3) کامل ومقبول نماز کے لیے تمام سنن وواجبات کو جاننا اور ان پرعمل کرنا چاہیے یعنی مسنون کامل وضو، مشروع افضل وقت، اعتدال ارکان اور حضور قلب وغیرہ۔ (4) اللہ کے وعدے، جواس کی شریعت میں بیان کئے گئے ہیں، اعمال حسنہ ہی پرموقوف ہیں۔ (5) ان کے بغیر بھی اللہ جسے چاہے معاف فرما دے یاعذاب دے اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ (لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ)(الأنبیا ء: 23)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن صنابحی نے کہا کہ ابومحمد کا کہنا ہے کہ وتر واجب ہے تو اس پر عبادہ بن صامت ؓ نے کہا: ابومحمد نے غلط کہا۱؎، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے پانچ نماز فرض کی ہیں، جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع و سجود کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: عبادہ رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وتر پانچ نمازوں کی طرح فرض اور واجب نہیں ہے۔ مگر مسنون اور موکد ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جیسے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی وتر نہ چھوڑا کرتے تھے۔ کامل و مقبول نماز کے لیے تمام سنن و واجبات کو جاننا اور ان پر عمل کرنا چاہیے یعنی مسنون کامل وضو، مشروع افضل وقت، اعتدال ارکان اور حضور قلب وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Sunabihi (RA): Abu Muhammad fancies that witr prayer is essential. (Hearing this) 'Ubadah ibn as-Samit said: Abu Muhammad was wrong. I bear witness that I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: Allah, the Exalted, has made five prayers obligatory. If anyone performs ablution for them well, offers them at their (right) time, and observes perfectly their bowing and submissiveness in them, it is the guarantee of Allah that He will pardon him; if anyone does not do so, there is no guarantee for him on the part of Allah; He may pardon him if He wills, and punish him if He wills.