باب: جو شخص نماز کے وقت میں سوتا رہ جائے یا نماز(پڑھنا) بھول جائے؟
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Whoever Sleeps Through The Prayer (Time) Or Forgets (To Pray))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
436.
ابوہریرہ ؓ سے مذکورہ بالا قصے میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس جگہ سے نکل چلو جہاں تم پر غفلت طاری ہوئی ہے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور پھر اقامت کہی اور نماز پڑھی۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس روایت کو مالک سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور عبدالرزاق نے معمر اور ابن اسحاق سے نقل کیا ہے۔ مگر کسی نے بھی زہری کی اس روایت میں اذان کا ذکر نہیں کیا۔ اور معمر سے اوزاعی اور ابان عطار کے سوا کسی نے بھی اس کو بیان نہیں کیا ہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
ابوہریرہ ؓ سے مذکورہ بالا قصے میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس جگہ سے نکل چلو جہاں تم پر غفلت طاری ہوئی ہے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور پھر اقامت کہی اور نماز پڑھی۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس روایت کو مالک سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور عبدالرزاق نے معمر اور ابن اسحاق سے نقل کیا ہے۔ مگر کسی نے بھی زہری کی اس روایت میں اذان کا ذکر نہیں کیا۔ اور معمر سے اوزاعی اور ابان عطار کے سوا کسی نے بھی اس کو بیان نہیں کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے اس حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی اس جگہ سے جہاں تمہیں یہ غفلت لاحق ہوئی ہے کوچ کر چلو۔“ وہ کہتے ہیں: پھر آپ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان۱؎ دی اور تکبیر کہی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے مالک، سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور عبدالرزاق نے معمر اور ابن اسحاق سے روایت کیا ہے، مگر ان میں سے کسی نے بھی زہری کی اس حدیث میں اذان۲؎ کا ذکر نہیں کیا ہے، نیز ان میں سے کسی نے اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے سوائے اوزاعی اور ابان عطار کے، جنہوں نے اسے معمر سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس روایت میں اذان کا اضافہ ہے، یونس والی روایت میں اذان کا ذکر نہیں، چھوٹی ہوئی نماز کے لئے اذان دی جائے گی یا نہیں اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، امام احمد کی رائے میں اذان اور اقامت دونوں کہی جائے گی، اور یہی قول اصحاب الرای کا بھی ہے، امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ صرف تکبیر کہی جائے گی اذان نہیں۔ ۲؎: یہی واقعہ ہشام نے حسن کے واسطے سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے اس میں بھی اذان کا ذکر ہے، اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اذان اور اقامت دونوں کا ذکر ہے (اور ان دونوں کی روایتیں آگے آ رہی ہیں) یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں، نیز دیگر صحابہ کرام سے بھی ایسے ہی مروی ہے، اور احادیث و روایات میں ثقہ راویوں کے اضافے اور زیادات مقبول ہوتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: Another version of the above tradition adds: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Go away from this place of yours where inadvertence took hold of you. He then commanded Bilal who called for prayer and announced that the prayer in congregation was ready (i.e. he uttered the iqamah) and he observed prayer. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition has been narrated by Malik, Sufyan b. 'Uyainah, al-Awza'i, and 'Abd al-Razzaq from Ma'mar and Ibn Ishaq, none of them made a mention of the call for prayer (adman) in this version of the tradition narrated by al-Zuhri, and none of them attribute (this tradition) to him except al-Awza'i and Aban al-'Attar on the authority of Ma'mar.