باب: کوئی شخص اپنے باپ یا بھائی وغیرہ کے جرم میں نہیں پکڑا جا سکتا
)
Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: A Man Is Not To Be Punished For The Wrongs Done By His Father Or Brother)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4495.
سیدنا ابورمثہ (رفاعہ بن یثربی) ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے ہاں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے میرے والد سے پوچھا: ”یہ تمہارا بیٹا ہے؟“ (والد نے) کہا: ہاں، رب کعبہ کی قسم! آپ نے فرمایا: ”سچ؟“ میرے باپ نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہنستے ہوئے تبسم فرمایا، کیونکہ میری مشابہت میرے باپ میں نمایاں تھی اور باپ نے میرے بارے میں قسم کھائی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”خبردار! نہ یہ تیرے کسی قصور میں پکڑا جائے گا اور نہ تو اس کے بدلے میں۔“ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ”کوئی جان کسی جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔“
تشریح:
کوئی مجرم جرم کرکے بھاگ جائے اور حکومت اس کو پکڑ نہ سکے اس کے والدین یا عزیز واقارب کو پکڑ لینا صریح ظلم ہے، الا یہ کہ وہ اس کے جرم میں شریک ہوں یا اسے بھگانے یا چھپانے والے ہوں اور یہ بات اسلامی معاشرے اور اسلامی قانون کی ہے جب لوگ شریعت کے پابند ہوں تو شریعت بھی ان کی پابند نہیں ہو سکتی۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
سیدنا ابورمثہ (رفاعہ بن یثربی) ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے ہاں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے میرے والد سے پوچھا: ”یہ تمہارا بیٹا ہے؟“ (والد نے) کہا: ہاں، رب کعبہ کی قسم! آپ نے فرمایا: ”سچ؟“ میرے باپ نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہنستے ہوئے تبسم فرمایا، کیونکہ میری مشابہت میرے باپ میں نمایاں تھی اور باپ نے میرے بارے میں قسم کھائی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”خبردار! نہ یہ تیرے کسی قصور میں پکڑا جائے گا اور نہ تو اس کے بدلے میں۔“ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ”کوئی جان کسی جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔“
حدیث حاشیہ:
کوئی مجرم جرم کرکے بھاگ جائے اور حکومت اس کو پکڑ نہ سکے اس کے والدین یا عزیز واقارب کو پکڑ لینا صریح ظلم ہے، الا یہ کہ وہ اس کے جرم میں شریک ہوں یا اسے بھگانے یا چھپانے والے ہوں اور یہ بات اسلامی معاشرے اور اسلامی قانون کی ہے جب لوگ شریعت کے پابند ہوں تو شریعت بھی ان کی پابند نہیں ہو سکتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورمثہ ؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، آپ نے میرے والد سے پوچھا: ”یہ تمہارا بیٹا ہے؟“ میرے والد نے کہا: ہاں رب کعبہ کی قسم! آپ ﷺ نے فرمایا: ”سچ مچ؟“ انہوں نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ مسکرائے، کیونکہ میں اپنے والد کے مشابہ تھا، اور میرے والد نے قسم کھائی تھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”سنو! نہ یہ تمہارے جرم میں پکڑا جائے گا، اور نہ تم اس کے جرم میں۔“ اور پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔“ (الأنعام: ۱۶۴، الإسراء: ۱۵، الفاطر : ۱۸)
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Rimthah (RA): I went to the Prophet (ﷺ) with my father. The Apostle of Allah (ﷺ) then asked my father: Is this your son? He replied: Yes, by the Lord of the Ka’bahh. He again said: Is it true? He said: I bear witness to it. The Apostle of Allah (ﷺ) then smiled for my resemblance with my father, and for the fact that my father took an oath upon me. He then said: He will not bring evil on you, nor will you bring evil on him. The Apostle of Allah (ﷺ) recited the verse: "No bearer of burdens can bear the burden of another".