Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: The Diyah For Unintentional Killing That Appears Intentional)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4588.
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے، بقول مسدد فتح والے دن خطبہ ارشاد فرمایا: پھر سلیمان بن حرب اور مسدد دونوں اپنے بیان میں متفق ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”خبردار! تحقیق جاہلیت کے دور کی فخر کی ہر بات خون سے متعلق ہو یا مال سے، جس کا ذکر کیا جاتا ہو یا دعویٰ کیا جاتا ہو، وہ میرے قدموں تلے (روندی جا رہی) ہے، سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی خدمت کے عمل کے۔“ (وہ حسب سابق بحال ہے) پھر فرمایا: ”خبردار! قتل خطا جو عمد کے مشابہ ہو سانٹے یا لاٹھی وغیرہ سے جیسے بھی ہو، اس کی دیت سو اونٹ ہے، ان میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں جن کے پیٹوں میں بچے ہوں۔“
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے، بقول مسدد فتح والے دن خطبہ ارشاد فرمایا: پھر سلیمان بن حرب اور مسدد دونوں اپنے بیان میں متفق ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”خبردار! تحقیق جاہلیت کے دور کی فخر کی ہر بات خون سے متعلق ہو یا مال سے، جس کا ذکر کیا جاتا ہو یا دعویٰ کیا جاتا ہو، وہ میرے قدموں تلے (روندی جا رہی) ہے، سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی خدمت کے عمل کے۔“ (وہ حسب سابق بحال ہے) پھر فرمایا: ”خبردار! قتل خطا جو عمد کے مشابہ ہو سانٹے یا لاٹھی وغیرہ سے جیسے بھی ہو، اس کی دیت سو اونٹ ہے، ان میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں جن کے پیٹوں میں بچے ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا آپ نے فرمایا: ”سنو! جاہلیت کے خون یا مال کی جتنی فضیلتیں بھی تھیں جن کا ذکر کیا جاتا تھا یا جن کے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے قدموں تلے ہیں، سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی دیکھ ریکھ کے۔“ پھر فرمایا: ”سنو! قتل خطا جو کوڑے یا لاٹھی سے ہوا ہو شبہ عمد ہے، اس کی دیت سو اونٹ ہے، جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں گے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ اس سے پہلے حدیث نمبر (۴۵۴۷) کے تحت بھی گزر چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Musaddad's version has: He addressed on the day of Conquest. The agreed version then goes: Beware! Every object of pride of pre-Islamic times, whether it is blood-vengeance or property, mentioned or claimed, has been put under my feet except supply of water to the pilgrims and custody of the House (the Ka'bah). He then said: Beware! The blood-wit for unintentional murder, such as is done with a whip and stick, is one hundred camels, forty of which are pregnant.