Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Siwak)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
47.
سیدنا زید بن خالد جہنی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ’’اگر میری امت کیلئے مشقت نہ ہوتی تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔‘‘ ابوسلمہ کہتے ہیں چنانچہ میں نے دیکھا کہ سیدنا زید ؓ مسجد میں بیٹھے ہوتے تھے اور مسواک ان کے کان پر رکھی ہوتی تھی، جیسے کسی منشی کا قلم اس کے کان پر ہوتا ہے، تو جب نماز کے لیے اٹھتے تو مسواک کر لیتے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا لقب رحمۃ للعالمین ہے چنانچہ آپ نے امت کی مشقت کے پیش نظر ہر نماز کے ساتھ مسواک کی پابندی کا باقاعدہ حکم نہیں دیا۔ اگر حکم دے دیتے تو واجب ہو جاتی اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین واجب الاتباع ہیں۔ (2) نماز عشاء کو مؤخر کرنا افضل ضرور ہے مگر جماعت اگر جلدی ہو رہی ہو تو اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ (3) حضرت زید رضی اللہ عنہ کا شوق اتباع انتہائی قابل قدر ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذا قال الترمذي) . إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا عيسى بن يونس: ثنا محمد بن
إسحاق عن محمد بن إبراهيم التيمي عن أبي سلمة بن عبد الرحمن. وهذا إسناد رجاله ثقات؛ لكن ابن إسحاق مدلس وقد عنعنه؛ إلا أنه قد توبع كما يأتي؛ فالحديث صحيح. وقد أخرجه الترمذي أيضا، والبيهقي من طريق المصنف، وأحمد (4/114 و 116 و 5/193) من طرق عن محمد بن إسحاق... به، وزادا: ولأخرت صلاة العشاء بلى ثلث للليل . وقال للترمذي: حديث حسن صحيح . ثم إن له طريقاً أخرى عن أبي سلمة؛ فقال أحمد (4/116) : ثنا عبد الصمد قال: ثنا حرب- يعني: ابن شداد- عن يحيى: ثنا أبو سلمة... به. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث علقه البخاري في (الصيام) ، ووصله الطحاوي (1/26) من الوجه الأول.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا زید بن خالد جہنی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ’’اگر میری امت کیلئے مشقت نہ ہوتی تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔‘‘ ابوسلمہ کہتے ہیں چنانچہ میں نے دیکھا کہ سیدنا زید ؓ مسجد میں بیٹھے ہوتے تھے اور مسواک ان کے کان پر رکھی ہوتی تھی، جیسے کسی منشی کا قلم اس کے کان پر ہوتا ہے، تو جب نماز کے لیے اٹھتے تو مسواک کر لیتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کا لقب رحمۃ للعالمین ہے چنانچہ آپ نے امت کی مشقت کے پیش نظر ہر نماز کے ساتھ مسواک کی پابندی کا باقاعدہ حکم نہیں دیا۔ اگر حکم دے دیتے تو واجب ہو جاتی اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین واجب الاتباع ہیں۔ (2) نماز عشاء کو مؤخر کرنا افضل ضرور ہے مگر جماعت اگر جلدی ہو رہی ہو تو اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ (3) حضرت زید رضی اللہ عنہ کا شوق اتباع انتہائی قابل قدر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن خالد جہنی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ’’اگر میں اپنی امت پر دشواری محسوس نہ کرتا تو ہر نماز کے وقت انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘ ابوسلمہ (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) کہتے ہیں: میں نے زید بن خالد ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز کے لیے مسجد میں بیٹھے رہتے اور مسواک ان کے کان پر ہوتی جیسے کاتب کے کان پر قلم لگا رہتا ہے، جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کر لیتے (پھر کان کے اوپر رکھ لیتے)۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zayd ibn Khalid al-Juhani (RA): I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: Were it not hard on my ummah, I would order them to use the tooth-stick at the time of every prayer. Abu Salamah said: Zayd ibn Khalid used to attend the prayers in the mosque with his tooth-stick on his ear where a clerk carries a pen, and whenever he got up for prayer he used it.