Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding taking revenge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4897.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابوبکر ؓ کو برا بھلا کہا کرتا تھا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ صفوان بن عیسیٰ نے ابن عجلان سے ایسے ہی روایت کیا ہے، جیسے سفیان نے روایت کیا ہے۔
تشریح:
مسلمان بھائی اگر کسی وقت تلخی میں آ جائے تو حتی الامکان صبر و حلم سے برداشت کرنا چاہیے۔ غلط باتوں کا جواب دینے کےلیے اللہ کے فرشتے مقرر ہیں۔ جب انسان از خود بدلہ لینے پر آجاتا ہے تو اللہ تعالی کی نصرت اور تائید ختم ہو جاتی ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
تمہید باب
بعض لوگ اتنے غبی ہوتے ہیں کہ تواضع ، انکسار، اور عفو و درگزر کے معنی غلط سمجھ لیتے ہیں اور اپنے بالمقابل کو بالکل حقیر سمجھتے ہوئے ہر کسی پر ذیادتی کرنے میں دلیر ہو جاتے ہیں۔اگر تجربے سے محسوس ہو کہ ذیادتی کرنے والا اپنے مقابل کے حق وحیثیتاور اپنی غلطی کو نہیں سمجھ رہا' تو جائز ہے کی ایسے ظالم کے ہاتھاور زبان پر بند باندھا جائے تاکہ وہ مزید دلیر نہ ہو اور کمزورں پر ناحق ظلم نہ کرے۔سورۃ الشورٰی میںیہمضمون یوں بیان ہوا ہے: (وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَوَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ)اور وہ لوگجب ان پر ظلم و ذیادتی ہوتو وہ بدلہ لیتے ہیں' اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پھر جوکوئی معاف کرے اور صلح کرے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے بے شک وہ ذیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔"
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابوبکر ؓ کو برا بھلا کہا کرتا تھا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ صفوان بن عیسیٰ نے ابن عجلان سے ایسے ہی روایت کیا ہے، جیسے سفیان نے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مسلمان بھائی اگر کسی وقت تلخی میں آ جائے تو حتی الامکان صبر و حلم سے برداشت کرنا چاہیے۔ غلط باتوں کا جواب دینے کےلیے اللہ کے فرشتے مقرر ہیں۔ جب انسان از خود بدلہ لینے پر آجاتا ہے تو اللہ تعالی کی نصرت اور تائید ختم ہو جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ابوبکر ؓ کو گالی دے رہا تھا، پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح اسے صفوان بن عیسیٰ نے ابن عجلان سے روایت کیا ہے، جیسا کہ سفیان نے کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition mentioned above has also been transmitted by Abu Hurairah through a different chain of narrators. This version has: A man was reviling Abu Bakr. He then mentioned the rest of the tradition in a similar manner. Abu Dawud said: Similarly, it has been transmitted by Safwan b. ‘Isa, from Ibn ‘Affan, as Sufyan said.