Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Proclaiming The Adhan In A Loud Voice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
515.
سیدنا ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”مؤذن کو جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے بخش دیا جاتا ہے۔ اور ہر خشک و تر چیز اس کی گواہی دیتی ہے اور جو جماعت میں حاضر ہوتا ہے اس کے لیے پچیس نمازوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے (اور دوسری نماز تک کے) مابین گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
تشریح:
(1) مؤذن کایہ شرف ہے کہ اس قدر طویل وعریض اور وسیع مغفرت کا مستحق بنتا ہے۔ یا یہ ایک تشبیہ وتمثیل ہے کہ بالفرض اس کے گناہ اس قدر بھی ہوں جو اتنی جگہ میں آئیں تو بھی معاف کر دیے جاتے ہیں اور جس قدر بلند آواز سےاذان کہےگا اسی قدر مغفرت کا مستحق بنے گا۔ لہذا بلند آواز سےاذان کہنا مستحب اورمؤکد ہے۔ (2) اذان سے اور جماعت میں شرکت سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ کبائر کی معافی کے لیے توبہ اور حقوق العبا د کی ادائیگی ضروری ہے۔ ویسے اللہ کی رحمت وسیع ہے چاہے تومعاف فرما دے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان (1664) في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا حفص بن عمر النمَري: ثنا شعبة عن موسى بن أبي عثمان عن أبي يحيى عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى، رجاله ثقات معروفون؛ غير موسى ابن أبي عثمان وهو الكوفي؛ قال ابن أبي حاتم عن أبيه: شيخ .
قلت: وقد روى عنه شعبة هذا الحديث، وهو لا يروي إلا عن ثقة كما ذكروا، وروى عنه الثوري أيضا وغيرهما. وشيخه أبو يحيى؛ قال المنذري في مختصره (رقم 484) : لم ينسبْ فيعْرَفَ حاله !
قلت: هكذا هو في أكثر الروايات غير منسوب، وقد قال في التهذيب : أبو يحيى المكي، روى عن أبي هريرة حديث: المؤذن يغفر له مدى صوته ؛ وعنه موسى بن أبي عثمان؛ ذكره ابن حبان في الثقات ، وزعم أفه سمعان الأسلمي. قلت: قال ابن عبد البر: أبو يحيى المكي؛ اسمه: سمعان، سمع من أبي هريرة، روى عنه بعض المدنيين في الأذان. وقال ابن القطان: لا يعرف أصلأ، وقد ذكره ابن الجارود، فلم يزد على ما أخذ من هذا الإسناد، ولم يسمه. وقال المنذري والنووي [في الأصل: الثوري ! وهو تصحيف ] : إنه مجهول . ثم قال في التهذيب : أبو يحيى مولى آل جعدة بن هبيرة الخزومي المدني، روى عن أبي هريرة: ما عاب رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طعاماً قط... الحديث، وعنه الأعمش . وفي الميزان ما أبو يحيى عن أبي هريرة فثقة (!) وعنه موسى بن أبي عثمان، قال ابن القطان: لا يعرف . قال: فأما أبو يحيى مولى جعدة عن أبي هريرة؛ فثقة. وأبو يحيى اسمه: قيسعن أبي هريرة، حدث عنه بكير بن الأشج. وآخر عن أبي هريرة من شيوخ صفوان ابن سليم ! وأخشى أن يكون في هذه العبارة زيادات من الناسخ أو الطابع؛ ومن ذلك لفظة: فثقة الأولى؛ فإن إثباتها لا يتناسب مع سياق الكلام! والله أعلم. فقد جزم الحافظ أن راوي الحديث عن أبي هريرة: هو أبو يحيى المكي المجهول! وأنا أرى أنه ليس به؛ بل هو الآخر أبو يحيى مولى آل جعدة؛ فقد صرح بذلك يحيى بن سعيد- وهو القطان الحافظ الحجة الثقة الثبت- في روايته لهذا الحديث عن شعبة؛ فقال الإمام أحمد (2/429) : ثنا يحيى بن سعيد عن شعبة قال: ثني موسى بن أبي عثمان قال: حدثني أبو يحيى مولى جعدة قال: سمعت أبا هريرة؛ أنه سمع من فم رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول... فذكره. وأبو يحيى مولى جعدة هذا: هو أبو يحيى مولى آل جعدة نفسه؛ فقد روى له الإمام أحمد الحديث المذكور في ترجمته آنفاً- نقلاً عن التهذيب -؛ فقال في مسنده (2/427 و 495) : ثنا أبو معاوية قال: ثنا الأعمش عن أبي يحيى مولى جعدة بن هبيرة عن أبي هريرة قال: ما رأيت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عاب طعاماً... الحديث. وقد رواه مسلم (6/134) من طرق عن أبي معاوية فقال: عن أبي يحيى مولى آل جعدة. وإذ قد ثبت أنه هو راوي حديث الباب؛ فلا بد من الوقوف قليلاً؛ لنعرف منزلته في الرواية؟! وإنه ليسبق إلى النظر أن مقتضى كونه من رجال صحيح مسلم : أنه ثقة عنده على الأقل! غير أن الحديث عنده قد اختلف في إسناده على أبي معاوية؛ فقد رواه عنه جماعة كما سبق. وخالفهم أبو كريب ومحمد بن المثنى فقالا: حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي حازم عن أبي هريرة... فأسقطا منه أبا يحيى مولى آل جعدة، وجعلا مكانه: أبا حازم. وهذه الرواية هي الصواب؛ فقد تابع أبا معاوية عليها: جرير وزهير وسفيان: عند مسلم، وسفيان أيضا وشعبة ووكيع: عند أحمد (2/474 و 479 و 481) ؛ فقالوا كلهم: عن الأعمش عن أبي حازم. وسفيان وشعبة أثبت في الرواية عن الأعمش من أبى معاوية، كما قال ابن معين وغيره؛ فروايته الوافقة لروايتهما هي الصواب حتماً. ولذلك أنكر الدارقطني على مسلم إسناد أبي معاوية الأول، وقال: هو معلل ، كما في شرح مسلم للنووي. فإذا كان الأمر كما ذكرنا؛ فلا يمكن حينئذ الاعتماد على تخريج مسلم لهذا الرجل في توثيقه، ولم تجد من نص على توثيقه من المتقدمين! نعم؛ وثقه الذهب فيما تقدم. ثم وجدت له سلفاً؛ وهو ابن معين؛ فانظر الصحيحة (190) . والحديث صحيح على كل حال. وقد أخرجه البخاري في خلق أفعال العباد (ص 76) بإسناد المصنف هذا. ثم أخرجه هو، والنسائي (1/106) ، وابن ماجه (1/246- 247) ، وأحمد (2/458) من طرق عن شعبة... به؛ وكلهم قالوا: عن أبي يحى... غير منسوب. لكن أخرجه الطيالسي (رقم 2542) : حدثنا شعبة عن موسى بن أبي عثمان - قال شعبة: وكان يؤذن على أطول منارة بالكوفة- قال: حدثني أبو يحيى- وأنا أطوف معه؛ يعني: حول البيت- قال سمعت أبا هريرة... به. وأخرجه البيهقي (1/397) من طريق الطيالسي. وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما ؛ كما في الترغيب (1/107/رقم 5) . وله طرق أخرى عن أبي هريرة: عند البيهقي (1/431) ؛ لكن فيها ضعف (وقد بينت ذلك في كتابنا نقد التاج الجامع للأصول (رقم 91) . ومنها: عن البراء بن عازب مرفوعاً مثله؛ وزاد: وله مثل أجر من صلى معه . أخرجه النسائي، وأحمد (4/284) من طريق معاذ بن هشام قال: ثني أبي عن قتادة عن أبي إسحاق الكوفي عنه. وهذا صحيح أيضا على شرطهما، وصححه ابن السكَن- كما فى التلخيص (3/184) ، و الفتح (2/70) -. وقال المنذري: إسناده حسن جيد . وأما بقية الحديث؛ فشواهده مشهورة؛ وانظر ما سيأتي (رقم...) ) . وله شواهد:؎ فمنها عن ابن عمر مرفوعاً... به، دون قوله: وشاهد الصلاة... إلخ.
أخرجه الإمام أحمد (2/136) : ثنا أبو الجَوَّاب: ثنا عمار بن رزيق عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عمر. وهذا سند صحيح، كما قال المنذري، وهو على شرط مسلم. وقد أخرجه الطبراني في الكبير والبزار والبيهقي أيضا.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”مؤذن کو جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے بخش دیا جاتا ہے۔ اور ہر خشک و تر چیز اس کی گواہی دیتی ہے اور جو جماعت میں حاضر ہوتا ہے اس کے لیے پچیس نمازوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے (اور دوسری نماز تک کے) مابین گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مؤذن کایہ شرف ہے کہ اس قدر طویل وعریض اور وسیع مغفرت کا مستحق بنتا ہے۔ یا یہ ایک تشبیہ وتمثیل ہے کہ بالفرض اس کے گناہ اس قدر بھی ہوں جو اتنی جگہ میں آئیں تو بھی معاف کر دیے جاتے ہیں اور جس قدر بلند آواز سےاذان کہےگا اسی قدر مغفرت کا مستحق بنے گا۔ لہذا بلند آواز سےاذان کہنا مستحب اورمؤکد ہے۔ (2) اذان سے اور جماعت میں شرکت سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ کبائر کی معافی کے لیے توبہ اور حقوق العبا د کی ادائیگی ضروری ہے۔ ویسے اللہ کی رحمت وسیع ہے چاہے تومعاف فرما دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”مؤذن کی بخشش کر دی جاتی ہے، جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے۱؎، اور اس کے لیے تمام خشک و تر گواہی دیتے ہیں، اور جو شخص نماز میں حاضر ہوتا ہے اس کے لیے پچیس نماز کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک نماز سے دوسری نماز کے درمیان جو کوتاہی سرزد ہوئی ہو وہ مٹا دی جاتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی اس کے اتنے گناہ بخش دیے جاتے ہیں جو اتنی جگہ میں سما سکیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): The Prophet (ﷺ) said: The mu'adhdhin will receive forgiveness to the extent to which his voice reaches, and every moist and dry place will testify on his behalf; and he who attends (the congregation of) prayer will have twenty-five prayers recorded for him and will have expiation for sins committed between every two times of prayer.