Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Is Required Of The Mu'adhdhin Regarding Kepping Track Of Time)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
517.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے۔ اے اللہ! اماموں کو (صحیح علم و عمل) کی توفیق دے اور مؤذنوں کو بخش دے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. ورواه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما . وصححه اليَعْمَرِيُّ) . إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا محمد بن فُضَيْل: ثنا الأعمش عن رجل عن أبي صالح عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير الرجل الذي لم يُسَم، لكن قد ثبت أن الأعمش سمعه من أبي صالح، كما سمعه منه غيره من الثقات، كما يأتي بيانه ، فالحديث صحيح لا شبهة فيه. والحديث في مسند أحمد (2/232) ... بهذا السند. وأخرجه البيهقي (1/430) من طريق المصنف عنه. وأخرجه الترمذي (1/403) معلقاً فقال: وروى أسباط بن محمد عن الأعمش قال: حُدثْتُ عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ثم أخرجه هو (1/402) ، والشافعي في الأم (1/141) ، والطيالسي (رقم 2404) ، وأحمد (2/284 و 424 و 461 و 472) ، والطبراني في معجمه الصغير (ص 59 و 123 و 164) ، وأبو نعيم في حلية الأولياء (7/118) ، والخطيب في تاريخه (3/242 و 4/387 و 9/413 و 1/3061) من طرق أخرى كثيرة عن الأعمش عن أبي صالح... به. وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما - كما في الترغيب (1/108) ، و التلخيص (3/193) -. ورواه البيهقي أيضا (1/435) ؛ وقال: وهذا الحديث لم يسمعه الأعمش باليقين من أبي صالح؛ وإنما سمعه من رجل عن أبي صالح... ! ثم ساق إسناده من طريق المصنف هذه. قال الشوكاني في نيل الأوطار (2/29) : فيجاب عنه بأن ابن نمير قد قال: عن الأعمش عن أبي صالح؛ ولا أراني إلا قد سمعته منه [قلت: وهو عند المصنف عقب هذه الرواية]. وقال إبراهيم بن حميد الرّؤَاسيّ: قال الأعمش: وقد سمعته من أبي صالح. وقال هشيم: عن الأعمش: حدثنا أبو صالح عن أبي هريرة. ذكر ذلك الدارقطني[يعني: في العلل ]. فبينت هذه للطرق أن الأعمش سمعه عن غير أبي صالح، ثم سمعه منه. قال اليعمري: والكل صحيح، والحديث متصل .
قلت: ويؤيده أن الحديث رواه ثقتان آخران عن أبي صالح موصولاً: الأول: سهيل بن أبي صالح. أخرجه الشافعي في مسنده (ص 21) ، وأحمد (2/419) ، والخطيب (6/167) ، والبيهقي (1/430) - عن الشافعي- من طرق عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة... به. وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم. وقد قال الحافظ: قال ابن عبد الهادي : أخرج مسلم بهذا الإسناد نحواً من أربعة عشر حديثاً . ورواه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما ؛- وهو فى زوائد ابن حبان (363) -. وأعله البيهقي بقوله: وهذا الحديث لم يسمعه سهيل من أبيه؛ إنما سمعه من الأعمش ! ثم أخرج البيهقي- من طريق محمد بن جعفر-، والطبراني في الصغير (ص 123) - من طريق روح بن القاسم- كلاهما عن سهيل بن أبي صالح عن الأعمش عن أبي صالح... به.
قلت: وليس في هذه الرواية ما ينفي أن يكون سهيلٌ سمع الحديث من أبيه؛ فإنه ثقة كثير الرواية عن أبيه، وهو لم يعرف بالتدليس، فروايته محمولة على الاتصال- كما هو مقرر في الأصول-، ولا مانع أن يكون سمعه من الأعمش عن أبيه، وعن أبيه مباشرة؛ فكان يحدث به مرة هكذا، ومرة هكذا، كما يقع ذلك في كثير من الأسانيد. والأخر: أبو إسحاق السَّبيعي- واسمه عمرو بن عبد الله الهَمْداني-: أخرج حديثه الإمام أحمد فقال (2/377- 378 و 514) : ثنا موسى بن داود: حدثناؤ زهير عن أبي إسحاق عن أبي صالح عن أبي هريرة... به. وهذا سند صحيح على شرط مسلم؛ لكن زهير- وهو ابن معاوية- سمع من أبي إسحاق في حالة اختلاطه؛ لكن هو شاهد قوي للأسانيد الأخرى. وقد أخرجه الطبراني أيضا (ص 155) ؛ وقال: تفرد به موسى بن داود . وقد خالفهم محمد بن أبي صالح أخو سهيل، فقال: عن أبيه أنه سمع عائشة تقول... فذكر الحديث. أخرجه الطحاوي في مشكل الأثار (3/53) ، وابن حبان (362) ، وأحمد (6/65) ، والبيهقي (1/431) من طريق أبي عبد الرحمن المقري: ثنا حيوة: حدثني نافع بن سليمان أن محمد بن أبي صالح حدثه... به.وأخرجه ابن حبان في صحيحه من رواية ابن وهب عن حيوة... بسنده. وقال ابن خزيمة في صحيحه - بعد أن أخرجه من رواية الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة-: رواه محمد بن أبي صالح عن أبيه عن عائشة. والأعمش أحفظ من مائتين مثل محمد بن أبي صالح .
قلت: ومحمد هذا؛ ليس بالمشهور؛ بل قال الذهبي: لا يعرف . ولذلك فالصواب قول أبي زرعة: حديث أبي صالح عن أبي هريرة أصح من حديث أبي صالح عن عائشة .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے۔ اے اللہ! اماموں کو (صحیح علم و عمل) کی توفیق دے اور مؤذنوں کو بخش دے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن۱؎ اور کفیل ہے اور مؤذن امین ہے۲؎، اے اللہ! تو اماموں کو راہ راست پر رکھ۳؎ اور مؤذنوں کو بخش دے.4؎ “
حدیث حاشیہ:
۱؎: امام کی ذمہ داری یہ ہے کہ صحیح سنت کے مطابق نماز پڑھائے۔ دعاؤں میں اپنے مقتدیوں کو شامل رکھے اور صرف اپنے آپ ہی کو مخصوص نہ کرے۔ مقتدیوں کی نماز کی صحت و درستگی امام کی نماز کی صحت و درستگی پر موقوف ہے؛ اس لئے امام طہارت وغیرہ میں احتیاط برتے اور نماز کے ارکان و واجبات کو اچھی طرح ادا کرے۔ ۲؎: یعنی لوگ مؤذن کی اذان پر اعتماد کر کے نماز پڑھ لیتے اور روزہ رکھ لیتے ہیں، اس لئے مؤذن کو وقت کا خیال رکھنا چاہئے، نہ پہلے اذان دے نہ دیر کرے۔ ۳؎: یعنی جو ذمہ داری اماموں نے اٹھا رکھی ہے اس کا شعور رکھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی انہیں توفیق دے۔ ۴؎: مؤذنوں کو بخش دے یعنی اس امانت کی ادائیگی میں مؤذنوں سے جو کوتاہی اور تقصیر ہوئی ہو اسے معاف کر دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): The imam is responsible and the mu'adhdhin is trusted, O Allah, guide the imams and forgive the mu'adhdhins.