Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Is Required Of The Mu'adhdhin Regarding Kepping Track Of Time)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
518.
جناب ابوصالح کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا مگر یہ کہ میں نے اسے سیدنا ابوہریرہ ؓ ہی سے سنا ہے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا۔
تشریح:
1۔ امام کی زمہ داری یہ ہے کہ صحیح سنت کے مطابق نماز پڑھائے۔ دعائوں میں اپنے مقتدیوں کوشامل رکھے۔ اور صرف اپنے آپ کو ہی مخصوص نہ کرے۔ وغیرہ۔ 2۔ موذن کا اذان دینا اعلان عام ہوتا ہے کہ نماز سحر یا افطار کاوقت ہوگیا ہے۔ اس لئے اس پر اعتماد کیا جانا چاہیے۔ اور اس پر واجب ہے کہ اپنی ذمے داری کا خوب احساس کرے۔ 3۔ نماز کی امامت اور موذن بننا اسلامی معاشرے کے انتہائی باوقار مناصب ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی فضیلت بیان کی ہے۔ اس لئے انھیں کامل عزت و احترام دیا جائے۔ اور بلا وجہ ان کی تحقیر اور عیب چینی سے بچا جائے۔ در اصل یہ ہے کہ یہ مناسب دیکھ بھال کر صاحب صلاحیت افراد ہی کو دییئے جایئں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح موصول، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ وقد ذكر الأعمش أنه سمعه من أبي صالح فيما يظن، وقد جزم بسماعه منه في غير هذه الرواية، كما سبق ذكره في الرواية الأولى، فكان الإسناد موصولاً صحيحاً. والحديث أخرجه البيهقي (1/430) من طريق المصنف. وأخرجه الإمام أحمد (2/382) : ثنا عبد الله بن نمير... به. وقد سبق الكلام على الحديث وتخريجه في الرواية الأولى.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب ابوصالح کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا مگر یہ کہ میں نے اسے سیدنا ابوہریرہ ؓ ہی سے سنا ہے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام کی زمہ داری یہ ہے کہ صحیح سنت کے مطابق نماز پڑھائے۔ دعائوں میں اپنے مقتدیوں کوشامل رکھے۔ اور صرف اپنے آپ کو ہی مخصوص نہ کرے۔ وغیرہ۔ 2۔ موذن کا اذان دینا اعلان عام ہوتا ہے کہ نماز سحر یا افطار کاوقت ہوگیا ہے۔ اس لئے اس پر اعتماد کیا جانا چاہیے۔ اور اس پر واجب ہے کہ اپنی ذمے داری کا خوب احساس کرے۔ 3۔ نماز کی امامت اور موذن بننا اسلامی معاشرے کے انتہائی باوقار مناصب ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی فضیلت بیان کی ہے۔ اس لئے انھیں کامل عزت و احترام دیا جائے۔ اور بلا وجہ ان کی تحقیر اور عیب چینی سے بچا جائے۔ در اصل یہ ہے کہ یہ مناسب دیکھ بھال کر صاحب صلاحیت افراد ہی کو دییئے جایئں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ابوہریرہ ؓ سے گذشتہ حدیث کے مثل مرفوع روایت آئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has also been transmitted through a different chain of narrators by Abu Hurairah (RA) who reported it in a similar manner from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم).