Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Has Been Narrated Regarding The Rewards Of Walking To The Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
558.
سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو آدمی اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اجر و ثواب ایسے ہے جیسے کہ حاجی احرام باندھے ہوئے آئے اور جو شخص چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اس مشقت یا اٹھ کھڑے ہونے کی غرض صرف یہی نماز ہو تو ایسے آدمی کا ثواب عمرہ کرنے والے کی مانند ہے۔ اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کہ ان دونوں کے درمیان کوئی لغو نہ ہو علیین میں اندراج کا باعث ہے۔“
تشریح:
نوافل گھر میں پڑھنا اٖفضل ہے۔ اور مسجد میں بھی جائز ہے۔ ویسے الفاظ حدیث میں نماز چاشت کے لئے مسجد میں جانے کی صراحت نہیں بلکہ نماز کے لئے اٹھنے یا جانے کا بیان ہے۔ 2۔ (علیین) اس دیوان کا نام ہے۔ جس میں ابرار کے اعمال درج کیے جاتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن) . إسناده: حدثنا أبو توبة: نا الهيثم بن حميد عن يحيى بن الحارث عن القاسم أبي عبد الرحمن عن أبي أمامة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات؛ إلا أن في القاسم هذا- وهو ابن عبد الرحمن الشامي الدمشقي- اختلافاً، وقد وثقه ابن معين والعجلي ويعقوب ابن سفيان والترمذي، وصحح له وغيرهم. وقال البخاري: روى عنه العلاء بن الحارث وابن جابر وكثير بن الحارث ويحيى بن الحارث وسليمان بن عبد الرحمن أحاديث مقاربة. وأما من يُتكلم فيه- مثل جعفر بن الزبير ويشر بن نمير وعلي بن يزيد وغيرهم- ففي حديثهم عنه مناكير واضطراب . وقال أبو حاتم: حديث الثقات عنه مستقيم لا بأس به، وإنما ينكر عنه الضعفاء . وأما أحمد فخالف حيث قال: في حديث القاسم مناكير مما يرويها الثقات، يقولون: من قبل القاسم ! وقال أيضا: روى عنه علي بن يزيد أعاجيب، وما أراها إلا من قبل القاسم !
قلت: فإذا كانت هذه الأعاجيب من رواية علي بن يزيد- وهو متروك كما ذكرنا قريباً في الحديث الذي قبله-؛ فلا يمكن الحمل فيها على القاسم! ولئن صح أن في حديثه مناكير من رواية الثقات عنه؛ فينبغي اجتنابها إذا تبين ذلك؛ وإلا فالرجل في نفسه ثقة، ولا يسقط ذلك الاحتجاج به، ولا حديثه عن مرتبة الحسن. ولذلك قال الحافظ في ترجمته من التقريب : صدوق . فلم يلتفت إلى من جرحه، ولم يعتدَّ به. والحديث أخرجه أحمد (5/263 و 268) ، وابن عدي (1/202) ، وابن عساكر (16/56/5) من طريقين آخرين عن القاسم. وأخرجه البيهقي (3/63) عن المؤلف.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو آدمی اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اجر و ثواب ایسے ہے جیسے کہ حاجی احرام باندھے ہوئے آئے اور جو شخص چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اس مشقت یا اٹھ کھڑے ہونے کی غرض صرف یہی نماز ہو تو ایسے آدمی کا ثواب عمرہ کرنے والے کی مانند ہے۔ اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کہ ان دونوں کے درمیان کوئی لغو نہ ہو علیین میں اندراج کا باعث ہے۔“
حدیث حاشیہ:
نوافل گھر میں پڑھنا اٖفضل ہے۔ اور مسجد میں بھی جائز ہے۔ ویسے الفاظ حدیث میں نماز چاشت کے لئے مسجد میں جانے کی صراحت نہیں بلکہ نماز کے لئے اٹھنے یا جانے کا بیان ہے۔ 2۔ (علیین) اس دیوان کا نام ہے۔ جس میں ابرار کے اعمال درج کیے جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلے، تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کے ثواب کی طرح ہے، اور جو چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اسی کی خاطر تکلیف برداشت کرتا ہو تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کی طرح ہے، اور ایک نماز سے لے کر دوسری نماز کے بیچ میں کوئی لغو کام نہ ہو تو وہ علیین۱؎ میں لکھی جاتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: علیین اللہ تعالی کے پاس ایک دفتر ہے جس میں نیک اعمال لکھے جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Umamah (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: If anyone goes out from his house after performing ablution for saying the prescribed prayer in congregation (in the mosque), his reward will be like that of one who goes for hajj pilgrimage after wearing ihram (robe worn by the hajj pilgrims). And he who goes out to say the mid-morning (duha) prayer, and takes the trouble for this purpose, will take the reward like that of a person who performs umrah. And a prayer followed by a prayer with no worldly talk during the gap between them will be recorded in Illiyyun.