Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Al-Isbal During The Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
637.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”جس نے نماز میں تکبر کرتے ہوئے اپنا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکایا، اللہ اس کے گناہ معاف نہیں فرمائے گا، نہ برے کاموں سے اسے بچائے گا۔“ (یا اس کے لیے جنت کو حلال اور جہنم کو حرام نہیں فرمائے گا یا جب وہ اللہ کی طرف سے کسی حلال کام میں نہیں تو اس کے لیے بھی کوئی احترام نہ ہو گا)۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ محدثین کی ایک جماعت مثلاً حماد بن سلمہ، حماد بن زید، ابو الاحواص اور ابومعاویہ ؓ علیہم نے اس حدیث کو عاصم سے ابن مسعود ؓ پر موقوف روایت کیا ہے۔
تشریح:
(1) یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے دین اور نبی ﷺ کی سنت سےعمدا انحراف اور اس کی مخالفت کا عذاب انتہائی شدید ہے۔ جسے (فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي حِلٍّ وَلَا حَرَامٍ) سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ شارحین حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے کہ ایسے شخص کے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ برے کاموں سے بچنے کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اس کے لیے جنت حلال نہیں ہوتی اور جہنم حرام نہیں کی جاتی۔ اللہ کی طرف سےکسی احترام کا مستحق نہیں رہتا۔ والعیاز باللہ. (2) تہ بند، چادر اور شلوار کا ٹخنوں سےنیچے لٹکانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اسے تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جو اللہ کی سخت ناپسند ہے۔ (3) جہالت یا نسیان توشاید کسی اعتبار سےاللہ کے ہاں معاف ہوجائے مگر علم ہوجانے کے بعد ایسے عمل کا ارتکاب ’’تکبر،، میں شامل ہوتا ہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”جس نے نماز میں تکبر کرتے ہوئے اپنا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکایا، اللہ اس کے گناہ معاف نہیں فرمائے گا، نہ برے کاموں سے اسے بچائے گا۔“ (یا اس کے لیے جنت کو حلال اور جہنم کو حرام نہیں فرمائے گا یا جب وہ اللہ کی طرف سے کسی حلال کام میں نہیں تو اس کے لیے بھی کوئی احترام نہ ہو گا)۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ محدثین کی ایک جماعت مثلاً حماد بن سلمہ، حماد بن زید، ابو الاحواص اور ابومعاویہ ؓ علیہم نے اس حدیث کو عاصم سے ابن مسعود ؓ پر موقوف روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے دین اور نبی ﷺ کی سنت سےعمدا انحراف اور اس کی مخالفت کا عذاب انتہائی شدید ہے۔ جسے (فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي حِلٍّ وَلَا حَرَامٍ) سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ شارحین حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے کہ ایسے شخص کے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ برے کاموں سے بچنے کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اس کے لیے جنت حلال نہیں ہوتی اور جہنم حرام نہیں کی جاتی۔ اللہ کی طرف سےکسی احترام کا مستحق نہیں رہتا۔ والعیاز باللہ. (2) تہ بند، چادر اور شلوار کا ٹخنوں سےنیچے لٹکانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اسے تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جو اللہ کی سخت ناپسند ہے۔ (3) جہالت یا نسیان توشاید کسی اعتبار سےاللہ کے ہاں معاف ہوجائے مگر علم ہوجانے کے بعد ایسے عمل کا ارتکاب ’’تکبر،، میں شامل ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”جس نے نماز میں تکبر کرتے ہوئے اپنا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکایا، اللہ اس کے گناہ معاف نہیں فرمائے گا، نہ برے کاموں سے اسے بچائے گا۔“ (یا اس کے لیے جنت کو حلال اور جہنم کو حرام نہیں فرمائے گا یا جب وہ اللہ کی طرف سے کسی حلال کام میں نہیں تو اس کے لیے بھی کوئی احترام نہ ہو گا)۔ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ محدثین کی ایک جماعت مثلاً حماد بن سلمہ، حماد بن زید، ابو الاحواص اور ابومعاویہ علیہم نے اس حدیث کو عاصم سے ابن مسعود ؓ پر موقوف روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mas'ud (RA): I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: He who lets his garment trail during prayer out of pride, Allah, the Almighty, has nothing to do with pardoning him and protecting him from Hell.