Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: The times of the five prayers)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1420.
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث سنائی (کہا:)میرے والد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں بدر بن عثمان نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ابو بکر بن ابی موسیٰ نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ آپﷺ کے پاس ایک سائل نمازوں کے اوقات پوچھنے کے لیے حاضر ہوا تو آپﷺ نے اسے (زبانی) کچھ جواب نہ دیا۔ کہا: جب فجر کی پو پھوٹی تو آپﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی جبکہ لوگ (اندھیرے کی وجہ سے) ایک دوسرے کو پہچان نہیں پا رہے تھے، پھر جب سورج ڈھلا تو آپﷺ نے انہیں (بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو) حکم دیا اور انھون نے ظہر کی اقامت کہی جبکہ سورج ابھی بلند تھا، پھر جب سورج نیچے چلا گیا تو آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے مغرب کے اقامت کہی، پھر جب شفق غائب ہوئی تو آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں عشاء کی اقامت کہی، پھر اگلے دن فجر میں تاخیر کی، یہاں تک کہ اس وقت سے فارغ ہوئے جب کہنے والا کہے، سورج نکل آیا ہے یا نکلنے کو ہے، پھر ظہر کو مؤخر کیا حتی کہ گزشتہ کل کی عصر کے قریب کا وقت ہو گیا، پھر عصر کو مؤخر کیا کہ جب سلام پھیرا تو کہنے والا کہے: آفتاب میں سرخی آ گئی ہے ، پھر مغرب کو مؤخر کیا حتی کہ شفق غروب ہونے کے قریب ہوئی، پھر عشاء کو مؤخر کیا حتی کہ رات کی پہلی تہائی ہو گئی پھر صبح ہوئی تو آپﷺ نے سائل کو بلوایا اور فرمایا: ’’(نماز کا) وقت ان دونوں (وقتوں) کے درمیان ہے۔‘‘
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث سنائی (کہا:)میرے والد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں بدر بن عثمان نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ابو بکر بن ابی موسیٰ نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ آپﷺ کے پاس ایک سائل نمازوں کے اوقات پوچھنے کے لیے حاضر ہوا تو آپﷺ نے اسے (زبانی) کچھ جواب نہ دیا۔ کہا: جب فجر کی پو پھوٹی تو آپﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی جبکہ لوگ (اندھیرے کی وجہ سے) ایک دوسرے کو پہچان نہیں پا رہے تھے، پھر جب سورج ڈھلا تو آپﷺ نے انہیں (بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو) حکم دیا اور انھون نے ظہر کی اقامت کہی جبکہ سورج ابھی بلند تھا، پھر جب سورج نیچے چلا گیا تو آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے مغرب کے اقامت کہی، پھر جب شفق غائب ہوئی تو آپﷺ نے انھیں حکم دیا تو انھوں عشاء کی اقامت کہی، پھر اگلے دن فجر میں تاخیر کی، یہاں تک کہ اس وقت سے فارغ ہوئے جب کہنے والا کہے، سورج نکل آیا ہے یا نکلنے کو ہے، پھر ظہر کو مؤخر کیا حتی کہ گزشتہ کل کی عصر کے قریب کا وقت ہو گیا، پھر عصر کو مؤخر کیا کہ جب سلام پھیرا تو کہنے والا کہے: آفتاب میں سرخی آ گئی ہے ، پھر مغرب کو مؤخر کیا حتی کہ شفق غروب ہونے کے قریب ہوئی، پھر عشاء کو مؤخر کیا حتی کہ رات کی پہلی تہائی ہو گئی پھر صبح ہوئی تو آپﷺ نے سائل کو بلوایا اور فرمایا: ’’(نماز کا) وقت ان دونوں (وقتوں) کے درمیان ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بکر بن ابی موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک سائل، نمازوں کے اوقات پوچھنے کے لیے حاضر ہوا؟ تو آپﷺ نے اسے زبانی کوئی جواب نہیں دیا، فجر پھوٹنے پر آپﷺ نے فجر کی نماز کھڑی کی، جبکہ لوگ (تاریکی کی بنا پر) ایک دوسرے کو پہچان نہیں رہے تھے، پھر جب سورج ڈھل گیا تو آپﷺ نے اسے ظہر کھڑی کرنے کا حکم دیا، کہنے والا کہہ رہا تھا، آدھا دن گزر گیا ہے۔ اور آپﷺ اس کو ان سے زیادہ جانتے تھے، سورج ابھی بلند تھا کہ آپﷺ نے عصر کا حکم دیا اور عصر کی نماز ادا کی، پھر جب شفق غروب ہو گیا تو اسے حکم دیا اور عشاء کی نماز پڑھی، پھر اگلے دن فجر میں تاخیر کی اور کہنے والا کہہ رہا تھا سورج نکلا آیا یا نکلنے کو ہے، پھر ظہر کو مؤخر کیا حتیٰ کہ گزشتہ کل کی عصر کے قریب وقت ہو گیا، پھر عصر کو مؤخر کیا، حتیٰ کہ سلام پھیرا تو کہنے والا کہہ رہا تھا، آفتاب سرخ ہو گیا، پھر مغرب کو مؤخر کیا حتیٰ کہ شفق غروب ہونے کے قریب ہو گیا پھر عشاء کو مؤخر کیا حتیٰ کہ رات کا پہلا تہائی ہو گیا، پھر صبح ہوئی تو آپﷺ نے سائل کو بلوایا اور فرمایا: ’’نماز کا وقت ان دونوں وقت کے درمیان ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Musa narrated on the authority of his father that a person came to the Messenger of Allah (ﷺ) for inquiring about the times of prayers. He (the Holy Prophet) gave him no reply (because he wanted to explain to him the times by practically observing these prayers). He then said the morning player when it was daybreak, but the people could hardly recognise one another. He then commanded and when he hears the Iqamah for the noon prayer was pronounced when the tan had passed the meridian and one would say that it was midday but he (the Holy Prophet) knew better than them. He then again commanded and when he hears the Iqamah for the afternoon prayer was pronounced when the sun was high. He then commanded and Iqama for the evening prayer was pronounced when the sun had sunk. He then commanded and Iqama for the night prayer was pronounced when the twilight had disappeared. He then delayed the morning prayer on the next day (so much so) that after returning from it one would say that the sun had risen or it was about to rise. He then delayed the noon prayer till it was near the time of afternoon prayer (as it was observed yesterday). He then delayed the afternoon prayer till one after returning from it would say that the sun had become red. He then delayed the evening prayer till the twilight was about to disappear. He then delayed the night prayer till it was one-third of the night. He then called the inquirer in the morning and said: The time for prayers is between these two extremes).