قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابٌ فِي الْإِيلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْيِيرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ})

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1479. حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ سِمَاكٍ أَبِي زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا اعْتَزَلَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا النَّاسُ يَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، وَيَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُؤْمَرْنَ بِالْحِجَابِ، فَقَالَ عُمَرُ، فَقُلْتُ: لَأَعْلَمَنَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: يَا بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِكِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا لِي وَمَا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، عَلَيْكَ بِعَيْبَتِكَ، قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا حَفْصَةُ، أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِكِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَاللهِ، لَقَدْ عَلِمْتِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا يُحِبُّكِ، وَلَوْلَا أَنَا لَطَلَّقَكِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَتْ أَشَدَّ الْبُكَاءِ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: هُوَ فِي خِزَانَتِهِ فِي الْمَشْرُبَةِ، فَدَخَلْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَاعِدًا عَلَى أُسْكُفَّةِ الْمَشْرُبَةِ، مُدَلٍّ رِجْلَيْهِ عَلَى نَقِيرٍ مِنْ خَشَبٍ - وَهُوَ جِذْعٌ يَرْقَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَنْحَدِرُ - فَنَادَيْتُ: يَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَى الْغُرْفَةِ، ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ، فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قُلْتُ: يَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَى الْغُرْفَةِ، ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ، فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ رَفَعْتُ صَوْتِي، فَقُلْتُ: يَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِي عِنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَنَّ أَنِّي جِئْتُ مِنْ أَجْلِ حَفْصَةَ، وَاللهِ، لَئِنْ أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَرْبِ عُنُقِهَا، لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهَا، وَرَفَعْتُ صَوْتِي، فَأَوْمَأَ إِلَيَّ أَنِ ارْقَهْ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى حَصِيرٍ، فَجَلَسْتُ، فَأَدْنَى عَلَيْهِ إِزَارَهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ، وَإِذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَنَظَرْتُ بِبَصَرِي فِي خِزَانَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَنَا بِقَبْضَةٍ مِنْ شَعِيرٍ نَحْوِ الصَّاعِ، وَمِثْلِهَا قَرَظًا فِي نَاحِيَةِ الْغُرْفَةِ، وَإِذَا أَفِيقٌ مُعَلَّقٌ، قَالَ: فَابْتَدَرَتْ عَيْنَايَ، قَالَ: «مَا يُبْكِيكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ» قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، وَمَا لِي لَا أَبْكِي وَهَذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِكَ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِيهَا إِلَّا مَا أَرَى، وَذَاكَ قَيْصَرُ وَكِسْرَى فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفْوَتُهُ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ، فَقَالَ: «يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْيَا؟»، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: وَدَخَلْتُ عَلَيْهِ حِينَ دَخَلْتُ، وَأَنَا أَرَى فِي وَجْهِهِ الْغَضَبَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا يَشُقُّ عَلَيْكَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ؟ فَإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهُنَّ، فَإِنَّ اللهَ مَعَكَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَجِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَأَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَكَ، وَقَلَّمَا تَكَلَّمْتُ وَأَحْمَدُ اللهَ بِكَلَامٍ، إِلَّا رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ اللهُ يُصَدِّقُ قَوْلِي الَّذِي أَقُولُ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ آيَةُ التَّخْيِيرِ: {عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ} [التحريم: 5]، {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ} [التحريم: 4]، وَكَانَتْ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، وَحَفْصَةُ تَظَاهَرَانِ عَلَى سَائِرِ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَطَلَّقْتَهُنَّ؟ قَالَ: «لَا»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَالْمُسْلِمُونَ يَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، يَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، أَفَأَنْزِلُ، فَأُخْبِرَهُمْ أَنَّكَ لَمْ تُطَلِّقْهُنَّ، قَالَ: «نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ»، فَلَمْ أَزَلْ أُحَدِّثُهُ حَتَّى تَحَسَّرَ الْغَضَبُ عَنْ وَجْهِهِ، وَحَتَّى كَشَرَ فَضَحِكَ، وَكَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا، ثُمَّ نَزَلَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَزَلْتُ، فَنَزَلْتُ أَتَشَبَّثُ بِالْجِذْعِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا يَمَسُّهُ بِيَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّمَا كُنْتَ فِي الْغُرْفَةِ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ، قَالَ: «إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ»، فَقُمْتُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَنَادَيْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي، لَمْ يُطَلِّقْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ} [النساء: 83] فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ، وَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَةَ التَّخْيِيرِ

مترجم:

1479.

سماک ابوزمیل سے روایت ہے، (انہوں نے کہا:) مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حدیث بیان کی، (کہا:) مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج سے علیحدگی اختیار فرمائی، کہا: میں مسجد میں داخل ہوا تو لوگوں کو دیکھا وہ (پریشانی اور تفکر میں) کنکریاں زمین پر مار رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، یہ واقعہ انہیں پردے کا حکم دیے جانے سے پہلے کا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے (دل میں) کہا: آج میں اس معاملے کو جان کر رہوں گا۔ انہوں نے کہا: میں عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ک‬ے پاس گیا، اور کہا: ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی! تم اس حد تک پہنچ چکی ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دو؟ انہوں نے جواب دیا: خطاب کے بیٹے! آپ کا مجھ سے کیا واسطہ؟ آپ اپنی گھٹڑی (یا تھیلا وغیرہ جس میں قیمتی ساز و سامان سنبھال کر رکھا جاتا ہے یعنی اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی فکر کریں۔ انہوں نے کہا: پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ بنت عمر‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ک‬ے پاس آیا اور کہا: حفصہ! کیا تم اس حد تک پہنچ گئی ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دو؟ اللہ کی قسم! تمہیں خوب معلوم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم سے محبت نہیں رکھتے۔ اگر میں نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیتے۔ (میری یہ بات سن کر) وہ بری طرح سے رونے لگیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: وہ اپنے بالا خانے پر سامان رکھنے والی جگہ میں ہیں۔ میں وہاں گیا تو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام رَباح چوبارے کی چوکھٹ کے نیچے والی لکڑی پر بیٹھا ہے۔ اس نے اپنے دونوں پاؤں لکڑی کی سوراخ دار سیڑھی پر لٹکا رکھے ہیں۔ وہ کھجور کا ایک تنا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر (قدم رکھ کر) چڑھتے اور اترتے تھے۔ میں نے آواز دی، رباح! مجھے اپنے پاس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، حاضر ہونے کی اجازت لے دو۔ رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالا خانے کی طرف نظر کی، پھر مجھے دیکھا اور کچھ نہ کہا۔ میں نے پھر کہا: رباح! مجھے اپنے پاس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، حاضر ہونے کی اجازت لے دو، رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (دوبارہ) بالا خانے کی طرف نگاہ اٹھائی، پھر مجھے دیکھا، اور کچھ نہ کہا، پھر میں نے اپنی آواز کو بلند کیا اور کہا: اے رباح! مجھے اپنے پاس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، حاضر ہونے کی اجازت لے دو، میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا ہے کہ میں حفصہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ک‬ی (سفارش کرنے کی) خاطر آیا ہوں، اللہ کی قسم! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا، اور میں نے اپنی آواز کو (خوب) بلند کیا، تو اس نے مجھے اشارہ کیا کہ اوپر چڑھ آؤ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ازار درست کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے جسم) پر اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا اور چٹائی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر نشان ڈال دیے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کے کمرے میں دیکھا تو صرف مٹھی بھر جو ایک صاع کے برابر ہوں گے، جَو اور کمرے کے ایک کونے میں اتنی ہی کیکر کی چھال دیکھی۔ اس کے علاوہ ایک غیر دباغت شدہ چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ کہا: تو میری آنکھیں بہ پڑیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ابن خطاب! تمہیں رُلا کیا چیز رہی ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! میں کیوں نہ روؤں؟ اس چٹائی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر نشان ڈال دیے ہیں، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان رکھنے کا کمرہ ہے، اس میں وہی کچھ ہے جو مجھے نظر آرہا ہے، اور قیصر و کسری نہروں اور پھلوں کے درمیان (شاندار زندگی بسر کر رہے) ہیں، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول اور اس کی چنی ہوئی ہستی ہیں، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا سامان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن خطاب! کیا تمہیں پسند نہیں کہ ہمارے لیے آخرت ہو اور ان کے لیے دنیا ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: کیوں نہیں! کہا: جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ دیکھ رہا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کو (اپنی) بیویوں کی حالت کی بنا پر کیا دشواری ہے؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلاق دے دی ہے تو اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے، اس کے فرشتے، جبرئیل، میکائیل، میں، ابوبکر اور تمام مومن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے کم ہی کوئی بات کہی، مگر میں نے امید کی کہ اللہ میری اس بات کی تصدیق فرما دے گا جو میں کہہ رہا ہوں۔ (چنانچہ ایسے ہی ہوا) اور یہ تخییر کی آیت نازل ہو گئی: (اگر وہ (نبی) تم سب (بیویوں) کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب، انہیں تم سے بہتر بیویاں بدلے میں دے۔) اور (اگر تم دونوں ان کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی، تو اللہ خود ان کا نگہبان ہے، اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے (ان کے) مددگار ہیں۔) عائشہ بنت ابی بکر اور حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی تھیں۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ نے ان کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں مسجد میں داخل ہوا تھا تو لوگ کنکریاں زمین پر مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ کیا میں اتر کر انہیں بتا دوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (بیویوں) کو طلاق نہیں دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، اگر چاہو۔‘‘ میں مسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے غصہ دور ہو گیا، اور یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب وار ہوئے اور آپ ہنسے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے دندانِ مبارک سب انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھے۔ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بالا خانے سے نیچے) اترے۔ میں تنے کو تھامتے ہوئے اترا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے اترے جیسے زمین پر چل رہے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ بالا خانے میں 29 دن رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔‘‘چنانچہ میں مسجد کے دروازے پر کھڑا ہوا، اور بلند آواز سے پکار کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی، اور (پھر) یہ آیت نازل ہوئی: (اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور اپنے معاملات سنبھالنے والوں کی طرف لوٹا دیتے، تو وہ لوگ جو ان میں اس سے اصل مطلب اخذ کرتے ہیں اسے ضرور جان لیتے۔‘‘ تو میں ہی تھا جس نے اس معاملے کی اصل حقیقت کو اخذ کیا، اور اللہ تعالیٰ نے تخییر کی آیت نازل فرمائی۔