تشریح:
فوائدومسائل:
رسول اللہ ﷺ کوشدتِ مرض اور انتہائی تکلیف کے باوجود، دنیوی زندگی کے آخری لمحات تک سب سے زیادہ ایک ہی بات کی فکر تھی کہ امت کسی بھی صورت میں سیدھے راستے سے نہ بھٹکے۔ حیات مبارکہ کے آخری مرحلے میں، بیماری سے پہلے بھی آپﷺ نے بار بار اس حوالے سے رہنمائی فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا: (تَرَكْتُ فِيْكُم أَمرينِ لَن تَضِلُّوا مَا تَمسَّكتُم بِهِمَا كِتَابُ الله وَ سُنَّتِي) ’’میں تمہارے دومیان دو چیزیں چھوڑ كر جا رہا ہوں جب تک تم ان کو مضبوطی سے اپنائے رکھو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘ (المؤطا امام مالک: 2/ 899) یہ سبق صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو ازبر تھا۔ جب شدید تکلیف کے عالم میں بھی، آپﷺ نے امت کو گمراہی کے عالم سے بچانے کے بارے میں ہدایت لکھوانے کی خواہش ظاہر فرمائی تو جو لوگ آپﷺ کی ’’شدت وجع‘‘ (شدید دود اور تکلیف) کو دیکھ رہے تھے ان میں سے کئی ساتھیوں نے یہ سوچا کہ آپﷺ کے سامنے اس سبق کو دہرا کر سنا دیں تاکہ آپﷺ کو تسلی ہو جائے اور آپ زحمت سے بچ جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی کیا: انھوں نے آپ ﷺ ہی کا دیا ہوا سبق دہرا کر بتایا کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے یہی آپﷺ کا دیا ہوا سبق تھا۔ سنت بھی کتاب اللہ کی ہی عملی توضیح و تشریح ہے۔ اس کے دہرانے سے ثابت ہو گیا کہ صحابہ کو وہ پورا سبق یاد ہے۔ لیکن وہاں کچھ لوگ ایسے تھے جو اس پہلو کو دیکھ رہے تھے کہ اگر رسول اللہ ﷺ امت کو گمراہی سے بچانے کے لیے کوئی بات لکھوانا چاہتے ہیں تو اب لکھوا لینا ہی اہم ہے۔ انھوں نے اصرار سے اپنا مؤقف دہرایا۔ الزاماً بھی کہا کہ لکھواتے کیوں نہیں، کیا تم سمجھتے ہو کہ رسول اللہ شدتِ مرض کے زیر اثر یہ بات کر رہے ہیں (أھجر) بد قسمتی سے اس بحث کے دوران میں آوازیں بلند ہو گئیں جورسول اللہ کو ناگوار ہوئیں اور آپﷺ نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس مؤقف کے حامی تھے کہ چاہے آپﷺ شدید تکلیف کے عالم میں تھے، آپ ﷺ کا فرمان لکھوانا ضروری تھا۔ انھوں نے دوسرا موقف رکھنے والوں کے بارے میں یہ کہا کہ انھوں نے نہ لکھنے کی تجویز دے کر گویا یہ موقف اختیار کیا کہ رسول اللہ جو فرما رہے تھے وہ شدت ِ مرض کے زیرِ اثر تھا۔ یہ ایک الزامی موقف تھا۔ ورنہ ان لوگوں کا مقصد آپﷺ کو زحمت سے بچانے کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ جو حضرات لکھوانے کے حامی تھے انھوں نے بھی بحث پر اکتفا کیا، خود لکھنے کا سامان لے کر رسول اللہ ﷺ کے قریب نہ ہوئے تاکہ آپﷺ کا فرمان لکھ لیتے۔ ویسے بھی لکھنے کی ذمہ داری عموماً حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ بہرحال جو ہوا کاش وہ نہ ہوتا! کاش آوازیں بلند نہ ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ سب لوگوںکے اٹھ جانے کا حکم نہ دیتے یا کاش جو لکھوانے کے حامی تھے وہ فوراً لکھنے لگ جاتے! یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ جمعرات کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت سوموار کوہوئی۔ اگر اللہ کے حکم کے تحت لکھوانا ضروری ہوتا تو آپﷺ چند دنوں میں لکھنے والے بلا کر لازماً تحریر لکھواتے اور اسے جاری فرما دیتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے نقل کردہ الفاظ: ’’اس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ مجوزہ تحریر رسول اللہ کے جانشینی جیسے وقتی مسئلے کے بارے میں نہ تھی بلکہ ہمیشہ کے لیے امت کو ہدایت پر گامزن رکھنے کے لیے تھی، جس کی زبانی تلقین آپﷺفرما چکے تھے اور مزید تاکید کے لیے اسے لکھنے کا بھی ارادہ فرمایا تھا۔