قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: شمائل

صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ (بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2057. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ كُلُّهُمْ عَنْ الْمُعْتَمِرِ وَاللَّفْظُ لِابْنِ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ قَالَ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا نَاسًا فُقَرَاءَ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ أَوْ كَمَا قَالَ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ قَالَ فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صُلِّيَتْ الْعِشَاءُ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ بَعْدَمَا مَضَى مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ قَالَ أَوَ مَا عَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ قَالَ فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ وَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ كُلُوا لَا هَنِيئًا وَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا قَالَ حَتَّى شَبِعْنَا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ قَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا قَالَتْ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ قَالَ فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ قَالَ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَعَرَّفْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ إِلَّا أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ

مترجم:

2057.

معتمر بن سلیمان کے والد نے کہا: ہمیں ابوعثمان نے حدیث بیان کی کہ انھیں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ فقراء لوگ تھے ایک مرتبہ  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین (تیسرے، صحیح بخاری: 602) کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں، چھٹے کو لے جائے‘‘ یا جس طرح آپ ﷺ نے فرمایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللی تعالیٰ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ ﷺ دس آدمیوں کو لے گئے حضرت ابو  بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں، میں، میرے والد اور میری والدہ تھیں۔ (ابو عثمان نہدی نے کہا) اور مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا اور میری بیوی تھی اور میرے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا ایک مشترک خادم تھا، انھوں نے کہا: حضرت ابو  بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کا کھانا رسول اللہ  کا ساتھ کھایا، پھر آپ کے پاس ہی رکے رہے حتی کہ عشاء کی نماز پڑھ لی گئی، پھر لوٹے اور آپﷺ کے پاس ٹھہرے، حتی کہ رسول اللہﷺ کو نیند آنے لگی، پھر رات کا اتنا حصہ گزرنے کے بعد، جتنا اللہ کومنظور تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ گھر آئے تو  حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کی بیوی  نے کہا: آپ اپنے مہمانوں کو یا کہا: مہمان کو چھوڑکرکہاں رک گئے تھے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی  نے کہا: انھوں نے آپ کے بغیر کھانے سے انکار کر دیا، انھوں نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا، (مگر) وہ (انکار کر کے) ان پر غالب رہے۔ حضرت حضرت  عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں (ڈر سے) جا کر چھپ گیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اوجاہل! ناک کٹے! (انھیں شرم دلائی) اور برا بھلا کہا۔ اور مہمانوں سے کہا: کھانا کھاؤ، یہ کھانا کسی مزے کا نہیں (کہ وقت پر نہیں کھایا گیا) اور کہا: (تم میرا انتظار کرتے رہے ہو لیکن) اللہ کی قسم! میں (یہ کھانا) کبھی نہیں کھاؤں گا۔ (حضرت عبدالرحمان نے) کہا: اللہ ک قسم! ہم لوگ جو بھی لقمہ لیتے تھے، نیچے سے اس کی نسبت زیادہ کھانا اوپر آ جاتا۔ کہا: یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا پہلےسے زیادہ ہو گیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے کھانے کو دیکھا تو وہ پہلے جتنا بلکہ اس سے کہیں زیادہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی سے کہا: بنوفراس کی بہن! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ کھانا جتنا پہلےتھا اس سے تین گنا زیادہ (ہوگیا) ہے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کھانے میں سے کھایا اور کہا: وہ شیطان کی طرف سے تھی، یعنی قسم (کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے) پھر انھوں نے اس میں سے ایک لقمہ اور کھایا۔ پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے، وہ کھانا آپ کے پاس صبح تک پڑا رہا، ان دنوں ایک قوم کے ساتھ ہمارا معاہدہ تھا اور اب وہ مدت ختم ہو چکی تھی، ہم (مسلمانوں) نے بارہ آدمی تقسیم کیے (الگ الگ دستوں کے سربراہ مقرر کیے) ان میں سے ہر آدمی کے ساتھ (ماتحت) اور (بہت سے) لوگ تھے، اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ کتنے تھے، آپ نے وہ کھانا ان کے ساتھ روانہ کر دیا اور ان سب نے وہ کھانا کھایا۔ یا جس طرح انھوں نے بیان کیا۔