تشریح:
فائدہ:
عرب اسلام سے پہلے شراب نوشی کے دلدادہ تھے انھوں نے اسی مناسبت سے انگور، کشمش اور انگور کی بیل تک کے خوبصورت نام رکھے ہوئے تھے وہ کہتے تھے کہ شراب نوشی کے بعد انسان جودوکرم کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اس لیے انگور کی بیل اور انگور کا نام انھوں نے کرمہ بھی رکھا ہوا تھا۔ حقیقت میں شراب نوشی اور سخاوت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، البتہ مفت خورے، خوشامدی اور تملق پیشہ لوگ شراب پینے والوں کو بے وقوف بنا کر گل چھرے اڑانے اور مال اینٹھنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے تھے اور اب بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ شراب پینے والے کو سخی، کریم، عطا کا دلدادہ وغیرہ کہہ کر ان سے مال اینٹھتے ہیں یہ حقیقت میں سخاوت نہیں حماقت ہوتی ہے اور فائدے کے بجائے نقصان کا سبب ہوتی ہے کیونکہ خوشامد پیشہ لوگ مال لے اڑتے ہیں اور حقیقی مستحقین محروم رہ جاتے ہی۔ کتاب الاشربہ کے پہلے باب میں شراب کی حرمت سے پہلے حضرت حمزہ کی شراب نوشی کی مجلس کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ گانے والی نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نشے کے عالم میں اس بات پر اکسایا کہ وہ سخاوت کرتے ہوئے باہر موجود اونٹنیوں کے گوشت سے محفل کے شرکاء کی تواضع کریں اور انھوں نے فوراً چھری اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ان اونٹنیوں کے جگر اور گردے نکال لیے جن کی مدد سے محنت مزدوری کر کے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنا گھر بنانا اور بسانا چاہتے تھے۔ اس حماقت کو سخاوت کا نام دینا فریب دہی کی بد ترین مثال ہے شراب، پینے والوں کو اس تباہ کن حماقت پر اکساتی ہے حقیقی سخاوت پر نہیں۔ حقیقی سخاوت کا مرکز تو مومن کا دل ہے۔ مومن اس جذبے کے تحت فقرو فاقہ میں مبتلا ان حیا دار غیرت مندوں کو خود تلاش کرتا ہے جو دستِ سوال دراز نہیں کر سکتے اور انتہائی راز داری سے ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک مومن اس عالم میں بھی ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے جب وہ انتہائی ضرورت مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید انھی لوگوں کے بارے میں کہتا ہے ﴿ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ ’’اور وہ (دوسروں کو) خود پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں۔‘‘ (الحشر:9)