Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The month may be twenty-nine days)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2570.
ابن جریج نے کہا: مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا، کہہ رہے تھے: نبی کریم ﷺ ایک ماہ کے لیے اپنی بیویوں سے الگ ہوئے اور (اپنے الگ کمرے سے نکل کر) ہمارے پاس انتیس کی صبح کو تشریف لائے، بعض نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم نے تو انتیسویں کی صبح کی ہے۔ تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو (اشارہ کرتے ہوئے) تین دفعہ آپس میں ملایا۔ دو بار دونوں ہاتھوں کی پوری انگلیاں ملائیں اور تیسری دفعہ ان میں سے نو (ملائیں)۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ابن جریج نے کہا: مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا، کہہ رہے تھے: نبی کریم ﷺ ایک ماہ کے لیے اپنی بیویوں سے الگ ہوئے اور (اپنے الگ کمرے سے نکل کر) ہمارے پاس انتیس کی صبح کو تشریف لائے، بعض نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم نے تو انتیسویں کی صبح کی ہے۔ تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو (اشارہ کرتے ہوئے) تین دفعہ آپس میں ملایا۔ دو بار دونوں ہاتھوں کی پوری انگلیاں ملائیں اور تیسری دفعہ ان میں سے نو (ملائیں)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ کے لیے اپنی عورتوں سے الگ ہو گئے اور ہمارے پاس انتیس تاریخ کی صبح کو تشریف لائے (انتیس کے گزرنے کے بعد والی صبح) بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابھی تو انتیس دن پورے ہوئے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔‘‘ پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ ملایا دوفعہ دونوں ہاتھوں کی پوری انگلیاں ملائیں اور تیسری دفعہ ان میں سے نو کو ملایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Zubair is reported to have heard Jabir bin 'Abdullah (Allah be pleased with both of them) as saying: The Apostle of Allah (ﷺ) separated himself from his wives for a month. (His wives said:) He came to us on the morning of the twenty-ninth. Upon this some, of the people said: It is the morning of twenty- ninth (according to our calculation). Upon this the Apostle of Allah (ﷺ) said: The month may also consist of twenty-nine days. The Apostle of Allah (ﷺ) then flapped his bands thrice, twice with all the fingers of both his hand (to indicate twenty-nine) and by the third time with nine (fingers).