صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
14. باب: رمضان میں دن کے وقت روزہ دار کے لیے مجامعت کرنے کی سخت حرمت ‘اس پربڑا کفارا واجب ہو جاتا ہے
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
14. بَابُ تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الْجِمَاعِ فِي نَهَارِ رَمَضَانَ عَلَى الصَّائِمِ،
Muslim
15. The Book of Fasting
14. Chapter: The strict prohibition of intercourse during the day in Ramadan for one who is fasting; And the obligation of offering major expiation and the definition thereof; And that it is obligatory for both the one who can afford it and the one who cannot afford it, and it remains an obligation for the one who cannot afford it until he has the means
باب: رمضان میں دن کے وقت روزہ دار کے لیے مجامعت کرنے کی سخت حرمت ‘اس پربڑا کفارا واجب ہو جاتا ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The strict prohibition of intercourse during the day in Ramadan for one who is fasting; And the obligation of offering major expiation and the definition thereof; And that it is obligatory for both the one who can afford it and the one who cannot afford it, and it remains an obligation for the one who cannot afford it until he has the means)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2647.
سفیان بن عینیہ نے زہری سے، انھوں نے حمید بن عبداالرحمٰن سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں ہلاک ہو گیا۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’ تمھیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟‘‘ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے مجامعت کر لی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم (اتنی) طاقت رکھتے ہو کی ایک (غلام کی) گردن آزاد کو دو۔‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم (انقطاع کے بغیر) مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تہمارے پاس اتنی گنجائش ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا، جس میں کھجوریں تھیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے صدقہ کردو‘‘ تو اس نے کہا: (جو) ہم سے بھی زیادہ محتاج ہو اس پر؟ اس (شہر) کے دونوں (طرف کی) پتھریلی زمینون کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ اس کا ضرورت مند نہیں۔ اس پر نبی اکرم ﷺ مسکرا دیے حتی کہ آپ ﷺ کے دونوں جانب کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، پھر آبﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
سفیان بن عینیہ نے زہری سے، انھوں نے حمید بن عبداالرحمٰن سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں ہلاک ہو گیا۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’ تمھیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟‘‘ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے مجامعت کر لی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم (اتنی) طاقت رکھتے ہو کی ایک (غلام کی) گردن آزاد کو دو۔‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم (انقطاع کے بغیر) مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تہمارے پاس اتنی گنجائش ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا، جس میں کھجوریں تھیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے صدقہ کردو‘‘ تو اس نے کہا: (جو) ہم سے بھی زیادہ محتاج ہو اس پر؟ اس (شہر) کے دونوں (طرف کی) پتھریلی زمینون کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ اس کا ضرورت مند نہیں۔ اس پر نبی اکرم ﷺ مسکرا دیے حتی کہ آپ ﷺ کے دونوں جانب کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، پھر آبﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں تباہ و برباد ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تجھے کس چیز نے تباہ برباد کر ڈالا؟ اس نے کہا: رمضان میں اپنی بیوی سے تعلقات قائم کر بیٹھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو ایک گردن آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تیرے پاس ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی گنجائش ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کی ایک ٹوکری لائی گئی۔ تو آپﷺ نے فرمایا: یہ صدقہ کر دو۔ اس نے عرض کیا: کیا کوئی ہم سے بھی زیادہ محتاج ہے؟ مدینہ کے دونوں سنگلاخ زمینوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ اس کا محتاج نہیں ہے اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے حتی کہ آپﷺ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں۔ پھر فرمایا: ’’جاؤ اور اسے اپنے اہل کو کھلاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that a person came to the Apostle of Allah (ﷺ) and said: Messenger of Allah, I am undone. He (the Holy Prophet) said: What has brought about your ruin? He said: I have had intercourse with my wife during the month of Ramadan. Upon this he (the Holy prophet) said: Can you find a slave to set him free? He said: NO. He (the Holy Prophet (ﷺ) again) said: Can you observe fast for two consecutive months? He said: No. He (the Holy Prophet) said: Can you provide food to sixty poor people? He said: No. He then sat down and (in the meanwhile) there was brought to the Apostle of Allah (ﷺ) a basket which contained dates. He (the Holy Prophet) said: Give these (dates) in charity. He (the man) said: Am I to give to one who is poorer than I? There is no family poorer than mine between the two lava plains of Madinah. The Apostle of Allah (ﷺ) laughed so that his molar teeth became visible and said: Go and give it to your family to eat.