باب: عرفہ کے دن حج کرنے والے کے لیےمیدان عرفات میں روزہ نہ رکھنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: It is recommended for the person performing Hajj in 'Arafat not to fast on the day of 'Arafah.)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2688.
ابن عباس کے مولی کریب نے نبی اکرم ﷺ کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: عرفہ کے دن لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں شک میں پڑ گئے تو میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن بھیجا جس میں دودھ دوھا جاتا ہے، آپﷺ (عرفات میں) وقوف کرنے کی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے نوش فرمایا جبکہ لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے تھے۔
تشریح:
فوائد ومسائل
رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کے دن عرفہ میں سب کے سامنےدودھ پیا۔ اس سےسب کو پتہ چل گیا کہ آپ روزے سے نہیں، دوسری طرف صحیح مسلم ہی کی حدیث:2746 میں آپﷺ کا یہ فرمان ومنقول ہے کہ ’’میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یہ (عرفہ کے دن کا روزہ) ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ محدثین نے دو طرح سے ان دونوں باتوں کی مطابقت واضح کی ہے: (الف) اگرچہ یہ بہت عمل تھا لیکن حجاج کی بڑی تعداد کے لیے یہ مشقت کا بھی سبب تھا۔ اگر آپﷺ اس دن روزہ رکھ لیتے تو قیامت تک لوگ اس پر عمل کرنے کےلیے سخت مشقت کا شکار ہوتے رہتے۔ اس لیے آپﷺ نے روزہ نہ رکھ کر اسی کو سنت بنا دیا۔ روزہ رکھنے کا ثواب بہت بڑا سہی، نہ رکھنا بھی ثواب کا باعث ہو گیا۔ (ب) آپﷺ نے یوم عرفہ (9 ذوالحجہ) کےروزے کی فضیلت بیان فرمائی تاکہ دنیا بھر میں آپﷺ کی امت کے افراد اس کے عظیم ثواب سے مستفید ہوں جبکہ آپ ﷺ نے عرفات میں جمع ہونے والے حجاج کے لیے، اپنے عمل کے ذریعے سے، روزہ نہ رکھنےکو سنت بنایا تاکہ لوگ مشقت میں نہ پڑیں۔ بلکہ ابوداؤد، نسائی، حاکم اور ابن خزیمہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ الفاظ روایت کیے ہیں: ’’ان رسول اللہ ﷺ نھي عن صوم يوم عرفة بعرفة‘‘ ’’آپﷺ نے عرفات کے میدان میں یوم عرفہ کے روزے سے منع فرمایا۔‘‘ ابن خزیمہ نےاس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ابن عباس کے مولی کریب نے نبی اکرم ﷺ کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: عرفہ کے دن لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں شک میں پڑ گئے تو میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن بھیجا جس میں دودھ دوھا جاتا ہے، آپﷺ (عرفات میں) وقوف کرنے کی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے نوش فرمایا جبکہ لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کے دن عرفہ میں سب کے سامنےدودھ پیا۔ اس سےسب کو پتہ چل گیا کہ آپ روزے سے نہیں، دوسری طرف صحیح مسلم ہی کی حدیث:2746 میں آپﷺ کا یہ فرمان ومنقول ہے کہ ’’میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یہ (عرفہ کے دن کا روزہ) ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ محدثین نے دو طرح سے ان دونوں باتوں کی مطابقت واضح کی ہے: (الف) اگرچہ یہ بہت عمل تھا لیکن حجاج کی بڑی تعداد کے لیے یہ مشقت کا بھی سبب تھا۔ اگر آپﷺ اس دن روزہ رکھ لیتے تو قیامت تک لوگ اس پر عمل کرنے کےلیے سخت مشقت کا شکار ہوتے رہتے۔ اس لیے آپﷺ نے روزہ نہ رکھ کر اسی کو سنت بنا دیا۔ روزہ رکھنے کا ثواب بہت بڑا سہی، نہ رکھنا بھی ثواب کا باعث ہو گیا۔ (ب) آپﷺ نے یوم عرفہ (9 ذوالحجہ) کےروزے کی فضیلت بیان فرمائی تاکہ دنیا بھر میں آپﷺ کی امت کے افراد اس کے عظیم ثواب سے مستفید ہوں جبکہ آپ ﷺ نے عرفات میں جمع ہونے والے حجاج کے لیے، اپنے عمل کے ذریعے سے، روزہ نہ رکھنےکو سنت بنایا تاکہ لوگ مشقت میں نہ پڑیں۔ بلکہ ابوداؤد، نسائی، حاکم اور ابن خزیمہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ الفاظ روایت کیے ہیں: ’’ان رسول اللہ ﷺ نھي عن صوم يوم عرفة بعرفة‘‘ ’’آپﷺ نے عرفات کے میدان میں یوم عرفہ کے روزے سے منع فرمایا۔‘‘ ابن خزیمہ نےاس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لوگوں نے عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کے بارے میں شک کیا تو میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا برتن ارسال کیا جبکہ آپﷺ ٹھہرنے کی جگہ (عرفات) میں ٹھہرے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نوش فرمایا جبکہ لوگ آپﷺ کی طرف دیکھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
عرفہ کے دن چونکہ حاجی منی سے عرفات جاتے ہیں وہاں ظہر و عصر کی نماز جمع کرتے ہیں اور امام خطبہ دیتا ہے پھر شام تک میدان عرفات میں دعا اور استغفار کے لیے وقوف کرنا ہوتا ہے اور آفتاب کے غروب ہوتے ہی مزدلفہ کی طرف واپس آنا ہوتا ہے ان کاموں کی سر انجام دہی کی بنا پر حاجی کے لیے روزہ مشکل اور مشقت کا باعث بنتا ہے اس لیے حاجیوں کے لیے عرفہ کے دن روزہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم کی خاطر عرفہ کے دن جبکہ آپ میدان عرفات میں اپنے اونٹ پر تھے اور وقوف فرما رہے تھے سب کے سامنے دودھ نوش فرمایا تاکہ سب دیکھ لیں کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ نہیں ہے اور دودھ دونوں بہنوں اُم الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باہمی مشورہ سے بھیجا گیا تھا اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لے کر گئے تھے اس لیے اس کی نسبت دونوں کی طرف ہو سکتی ہے عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مولیٰ تھے لیکن ہر وقت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے شاگرد اور قابل اعتماد تھے اس لیے ان کو مولیٰ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہہ دیا جاتا تھا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام امالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک حاجیوں کے لیے عرفہ کا روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Kuraib, the freed slave of Ibn 'Abbas (RA) , reported from Maimuna, the wife of the Apostle of Allah (ﷺ) , that people had doubt about the fasting of Allah's Messenger (ﷺ) on the day of 'Arafa. Maimuna sent him a cup of milk and he was halting at a place and he drank it and the people were seeing him.