Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The Virtue of Fasting)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2758.
عطاء نے ابو صالح الزیا ت سے روایت کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور روزہ ڈھال ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ اس دن فحش گفتگو نہ کرے اور نہ شور وغل کرے۔ اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے: میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جا ن ہے! قیامت کے دن روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہو گی۔ اور روزہ دار کے لیے دو خوشی کے موقع ہیں وہ ان دونوں پر خوش ہوتا ہے: جب وہ (روزہ) افطار کرتا ہے تو اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب کو ملے گا تو اپنے روزے (کی وجہ) سے خوش ہو گا ۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
عطاء نے ابو صالح الزیا ت سے روایت کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور روزہ ڈھال ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ اس دن فحش گفتگو نہ کرے اور نہ شور وغل کرے۔ اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے: میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جا ن ہے! قیامت کے دن روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہو گی۔ اور روزہ دار کے لیے دو خوشی کے موقع ہیں وہ ان دونوں پر خوش ہوتا ہے: جب وہ (روزہ) افطار کرتا ہے تو اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب کو ملے گا تو اپنے روزے (کی وجہ) سے خوش ہو گا ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عزو جل کا فرمان ہے ابن آدم انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے مگر روزہ کیونکہ وہ میرے لیے ہے تو میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو تو اس دن وہ بیہودہ اور فحش گفتگو نہ کرے اور نہ شور شغب کرے، پس اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرنے کی کوشش کرے تو وہ کہہ دے میں روزہ دار ہوں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے روزہ دار کی منہ کی بو قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہو گی اور روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں جو اس کے لیے شادمانی کا باعث بنتی ہیں جب وہ روزہ کھولتا ہے تو اپنے فطرسے خوش ہوتا ہے، نمبر2 اور جب اپنے رب کو ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا۔"
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Allah the Exalted and Majestic said: Every act of the son of Adam ؑؑis for him, except fasting. It is (exclusively) meant for Me and I (Alone) will reward it. Fasting is a shield. When any one of you is fasting on a day, he should neither indulge in obscene language, nor raise the voice; or if anyone reviles him or tries to quarrel with him he should say: I am a person fasting. By Him, in Whose Hand is the life of Muhammad, the breath of the observer of fast is sweeter to Allah on the Day of Judgment than the fragrance of musk. The one who fasts has two (occasions) of joy, one when he breaks the fast he is glad with the breaking of (the fast) and one when he meets his Lord he is glad with his fast.