باب: بھول جانےوالے کے کھانے ‘پینے اور مجامعت کرنے سے روزہ ختم نہیں ہوتا
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The one who eats, drinks, or has intercourse by mistake does not break his fast)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2768.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص روزے کی حالت میں بھول گیا اور کھا لیا یا پی لیا تو وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل
اس حدیث میں بھول کر کھانے پینے کا ذکر ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باب کے عنوان میں کھانے پینے پر قیاس کرتے ہوئے بھول کرجماع کرنے کو اس کے ساتھ شامل کیا ہے۔ اسلاف میں اس حوالے سے اختلاف ہے۔ امام عطاء، اوزاعی اور لیث اس کے قائل ہیں کہ جماع کرنے والے پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔ امام عطاء کا یہ بھی کہنا ہےکہ بھول کر جماع نہیں ہوسکتا۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ انھی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھول کر کھانے پینے والے کے لیے قضا سمجھتے ہیں، کفارہ واجب نہیں سمجھتے۔ حضرت مجاہد اور حسن بصری رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ (بعض صورتوں میں) بھول کر جماع ہو سکتا ہے۔ اگر ہو جائے تو اس پر نہ قضا ہے اورنہ کفارہ۔ امام شافعی ، امام ابو حنیفہ اور داود ظاہری وغیرہ اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ شوافع اس حدیث کے عمومی الفاظ سے بھی استدلال کرتے ہیں (من أفطر في شهر رمضان ناسياً فلا قضاء عليه و لا كفارة) ’’جس نے رمضان میں بھول کر (کسی بھی طرح) افطار کر لیا، اس پر نہ قضا ہے اور نہ کفارہ‘‘ (صحیح ابن حبان: 288/8، حدیث: 3521)
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص روزے کی حالت میں بھول گیا اور کھا لیا یا پی لیا تو وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث میں بھول کر کھانے پینے کا ذکر ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باب کے عنوان میں کھانے پینے پر قیاس کرتے ہوئے بھول کرجماع کرنے کو اس کے ساتھ شامل کیا ہے۔ اسلاف میں اس حوالے سے اختلاف ہے۔ امام عطاء، اوزاعی اور لیث اس کے قائل ہیں کہ جماع کرنے والے پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔ امام عطاء کا یہ بھی کہنا ہےکہ بھول کر جماع نہیں ہوسکتا۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ انھی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھول کر کھانے پینے والے کے لیے قضا سمجھتے ہیں، کفارہ واجب نہیں سمجھتے۔ حضرت مجاہد اور حسن بصری رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ (بعض صورتوں میں) بھول کر جماع ہو سکتا ہے۔ اگر ہو جائے تو اس پر نہ قضا ہے اورنہ کفارہ۔ امام شافعی ، امام ابو حنیفہ اور داود ظاہری وغیرہ اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ شوافع اس حدیث کے عمومی الفاظ سے بھی استدلال کرتے ہیں (من أفطر في شهر رمضان ناسياً فلا قضاء عليه و لا كفارة) ’’جس نے رمضان میں بھول کر (کسی بھی طرح) افطار کر لیا، اس پر نہ قضا ہے اور نہ کفارہ‘‘ (صحیح ابن حبان: 288/8، حدیث: 3521)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لیا وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا ہے (اس نے خود ارادہ کر کے روزہ نہیں توڑا ہے اس لیے اس کا روزہ برقرار ہے)
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے ۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے جماع کو اس پر قیاس کیا ہے اکثریت کا یہی مؤقف ہے۔ لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تینوں صورتوں میں قضاء ہے کفار نہیں ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عمل زوجیت بھول کرممکن نہیں ہے۔ اس لیے اس میں قضاء اور کفارہ ہے، عطاء، لیث اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جماع کی صورت میں قضاء ہے، کفارہ نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: If anyone forgets that he is fasting and eats or drinks he should complete his fast, for it is only Allah Who has fed him and given him drink.