صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
35. باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
35. بَابُ النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ يُفْطِرِ الْعِيدَيْنِ وَالتَّشْرِيقَ، وَبَيَانِ تَفْضِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ، وَإِفْطَارِ يَوْمٍ
Muslim
15. The Book of Fasting
35. Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days
باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2796.
سعید بن میناء نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: عبداللہ بن عمرو عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عبداللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم(روزانہ) دن کا روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا مت کرو کیونکہ تم پرتمھارے جسم کا حصہ (ادا کرنا ضروری) ہے، تم پر تمھاری آنکھ کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) تم پر تمھاری بیوی کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) روزے رکھو اور ترک بھی کرو، ہر مہینے میں سے تین دن کے روزے رکھ لیا کرو۔ یہ سارے وقت کے روزوں (کے برابر) ہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے اندر (زیادہ روزے رکھنے کی) قوت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم داؤد علیہ السلام کے روزے کی طرح (روزے) رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔‘‘ وہ کہا کرتے تھے: کاش! میں نے رخصت کو قبول کیا ہوتا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
سعید بن میناء نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: عبداللہ بن عمرو عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عبداللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم(روزانہ) دن کا روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا مت کرو کیونکہ تم پرتمھارے جسم کا حصہ (ادا کرنا ضروری) ہے، تم پر تمھاری آنکھ کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) تم پر تمھاری بیوی کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) روزے رکھو اور ترک بھی کرو، ہر مہینے میں سے تین دن کے روزے رکھ لیا کرو۔ یہ سارے وقت کے روزوں (کے برابر) ہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے اندر (زیادہ روزے رکھنے کی) قوت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم داؤد علیہ السلام کے روزے کی طرح (روزے) رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔‘‘ وہ کہا کرتے تھے: کاش! میں نے رخصت کو قبول کیا ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبد اللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو، کیونکہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے تیری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حصہ ہے روزہ رکھوبھی اور روزہ افطار بھی کرو، ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو تو یہ صوم الدہر ہو جائیں گے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے اندر قوت پاتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا: ’’تو داؤد علیہ السلام کے روزے رکھو ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔‘‘ (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں) کہا کرتے تھے۔ اے کاش! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی رخصت قبول کر لیتا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
دین اسلام چونکہ اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے۔ اس لیے دین کے ساتھ دنیوی ضرورتوں کو نظر انداز نہیں کرتا، بلکہ دونوں کے حسین امتزاج کی دعوت دیتا ہے اپنے جسم وجان، اہل وعیال اور دوست واحباب کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتا ہے اور انسان پر صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے۔ جس سے انسان کے دنیوی حقوق و فرائض متاثر نہ ہوں اور نہ اس کے جسم وجاں کو ضررونقصان یا ضرورت سے زائد مشقت وکلفت کا بار برداشت کرنا پڑے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق عبادت بہت بڑھا ہوا تھا، وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر نفل پڑھتے جن میں پورا قرآن مجید ختم کرتے، باپ نے شکایت کی کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق نظر انداز کررہے ہیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ تم نے جو رویہ اختیار کیا ہے، یہ تمہارے جسم وجان کے لیے تباہی کا باعث بنے گا اور اہل وعیال اوردوسروں کے حقوق بھی متاثر ہوں گے، اس لیے اعتدال اور میانہ روی اختیار کرتے ہوئے، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرو آسان رویہ اختیار کرو، ایک ماہ میں تین روزے رکھو اور ایک ماہ میں قرآن مجید ختم کرو، یہ امت کے عام افراد کے اعتبار سے روحانی تربیت، تزکیہ نفس اور تقرب الٰہی کا بہترین نسخہ ہے۔ لیکن اپنے ظروف اور احوال اور جسم وجان، اہل وعیال اور دوست واحباب کے حقوق کی روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر اضافہ جائز ہے، اس لیے صوم الدہر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جمہور امت کے نزدیک اگر صوم الدہر سے کس کا حق ضائع نہ ہو، باقی عبادات متاثر نہ ہوں اور روزہ رکھنے میں اپنی معیشت ومعاشرت میں خلل اور خرابی پیدا نہ ہو۔ انسان کے نفس کو ضررلاحق نہ ہوتو اس صورت میں جائز ہے بشرط یہ کہ عیدین اور ایام تشریق میں روزہ رکھے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مستحب ہے اکثراحناف، احمد اور اسحاق کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔ ابن حزم اور بعض احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے قاعدہ کلیہ یا عام ضابطہ بنانا، جس میں استثناء نہ ہو، ممکن نہیں ہے۔ اصل چیز تمام حقوق کی ادائیگی ہے، ہر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاہیے، اگر حقوق میں کوتاہی پیدا ہوتی ہے تو پھر یہ جائز نہیں، اگر حق واجب فوت ہو گا تو یہ مکروہ تحریمی ہوں گے اور اگر حق مندوب فوت ہوگا تو مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولی اور نامناسب ہوں گے، اس لیے آپ کا روزوں کے بارے میں مستقل معمول نہ تھا اور آپ نے داؤدی روزوں کو ترجیح دی تھی، بشرط یہ کہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔‘‘ یہ حال قراءت قرآن کا ہے کہ جتنی قراءت پر ہمیشگی ممکن ہو، حقوق وفرائض متاثر نہ ہو اور طبعیت کے اندر نشاط قائم رہے اور دل میں بیزاری اور اکتاہٹ پیدا نہ ہو، ایک انسان تمام ذمہ داریوں سے سبکدوشی ہو چکا ہے وہ ہر وقت دن، رات فارغ ہے، کوئی کام کاج نہیں ہے، وہ فرصت کے ہر لمحہ میں پڑھ سکتا ہے، اگر اس کو معانی اور مطالب کا پتہ ہی نہیں ہے اور نہ سیکھنے کا شوق وذوق تو وہ اپنی نیت کے مطابق، جس قدر قرآن چاہے ختم کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin 'Amr (RA) reported that the Messenger of Allah (ﷺ) said to me! 'Abdullah bin 'Amr, it has been conveyed to me that you observe fast during the day and stand in prayer during the whole night. Don't do that, for your body has a share of its own in you, your eye has a share of its own in you, your wife has a share of her own in you. Observe fast and break it too. Fast for three days in every month and that is a perpetual fasting. I said! Messenger of Allah, I have got strength enough (to do more than this), whereupon he said: Then observe the fast of David (peace be upon him). Observe fast one day and break it (on the other) day. And he ('Abdullah bin 'Amr) used to say: Would that I had availed myself of this concession.