قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ قِصَّةِ الجَسَّاسَةِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2942. حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ كِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَاللَّفْظُ لِعَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ ذَكْوَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ شَعْبُ هَمْدَانَ أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ وَكَانَتْ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِينِي حَدِيثًا سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُسْنِدِيهِ إِلَى أَحَدٍ غَيْرِهِ فَقَالَتْ لَئِنْ شِئْتَ لَأَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَهَا أَجَلْ حَدِّثِينِي فَقَالَتْ نَكَحْتُ ابْنَ الْمُغِيرَةِ وَهُوَ مِنْ خِيَارِ شَبَابِ قُرَيْشٍ يَوْمَئِذٍ فَأُصِيبَ فِي أَوَّلِ الْجِهَادِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا تَأَيَّمْتُ خَطَبَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَوْلَاهُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَكُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ فَلَمَّا كَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أَمْرِي بِيَدِكَ فَأَنْكِحْنِي مَنْ شِئْتَ فَقَالَ انْتَقِلِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ وَأُمُّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ فَقُلْتُ سَأَفْعَلُ فَقَالَ لَا تَفْعَلِي إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ كَثِيرَةُ الضِّيفَانِ فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْكِ خِمَارُكِ أَوْ يَنْكَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْكِ فَيَرَى الْقَوْمُ مِنْكِ بَعْضَ مَا تَكْرَهِينَ وَلَكِنْ انْتَقِلِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ فِهْرِ قُرَيْشٍ وَهُوَ مِنْ الْبَطْنِ الَّذِي هِيَ مِنْهُ فَانْتَقَلْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي سَمِعْتُ نِدَاءَ الْمُنَادِي مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَاءِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمْ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ قُلْنَا وَيْلَكَ مَا أَنْتَ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ أُنَاسٌ مِنْ الْعَرَبِ رَكِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قُلْنَا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لَا تُثْمِرَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِيهَا مَاءٌ قَالُوا هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ قَالَ أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ قَالَ أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنْ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ قَالَ لَهُمْ قَدْ كَانَ ذَلِكَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنْ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

2942.

ابن بریدہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا مجھے عامر بن شراحیل شعبی نے، جن کا تعلق شعب ہمدان سے تھا حدیث بیان کی، انہوں نے ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمشیرہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا، وہ اولین ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ سنی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہ کریں۔ انہوں نے کہا: اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں ایسا ہی کروں گی۔ انہوں نے ان (حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا) سے کہا بہت بہتر سنائیے۔ انہوں نے کہا میرا نکاح (عبدالحمید بن حفص) ابن مغیرہ سے ہوا، وہ اس وقت قریش کے بہترین نوجوانوں میں سے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اپنے پہلے جہاد میں زخمی بھی ہوئے تھے۔ جب میری شادی ختم ہوگئی گی (طلاق ہو گئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی لوگوں کے ساتھ ساتھ عبدالرحمان بن عوف نے بھی مجھے نکاح کا پیغام بھجوایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے آزاد کردہ غلام (کے بیٹے) اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے نکاح کا پیغام دیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے وہ اسامہ سے بھی محبت کرے‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ گفتگو فرمائی تو میں نے آپ سے کہہ دیا میرا معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم ام شریک کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔‘‘ ام شریک رضی اللہ تعالی عنہا انصار میں سے ایک مالدار خاتون تھیں، ان کے ہاں مہمان آتے رہتے تھے۔ میں نے کہا: میں ایسا ہی کروں گی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے (دوبارہ یہ) فرمایا: ’’تم ایسا نہ کرو، ام شریک ایسی خاتون ہے جن کے ہاں زیادہ مہمان آتے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تمہاری اوڑھنی گر جائے یا تمہاری پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا جائے تو لوگوں میں سے کسی کی نظر (ایسی جگہ) پڑے جو تمہیں ناگوار ہو، بلکہ تو میں اپنے چچا زاد عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔‘‘ وہ قبیلہ فہر، یعنی قریش کے فہر سے تھے وہ اسی قبیلے سے تھے جس سے وہ تعلق رکھتی تھی تو میں ان کی طرح منتقل ہو گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے ایک اعلان کرنے والے کی آواز سنی۔ اعلان کرنے والا کہہ رہا تھا﷤: ’’نماز کی جماعت ہونے والی ہے۔‘‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں عورتوں کی اس صف میں تھی  جو مردوں کی پشت پر عورتوں کی پہلی صف تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرما لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خوشی کے عالم میں) ہنستے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ’’ہر انسان اپنے نماز ہی کی جگہ پر بیٹھا رہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تم لوگوں کو کیوں اکٹھا کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں نہ کسی خاص بات کی رغبت  دلانے کے لئے اکٹھا کیا ہے نہ (کسی خاص چیز سے) ڈرانے کے لیے۔ میں نے تمہیں اس لئے اکٹھا کیا ہے کہ تمیم داری نے جو ایک نصرانی شخص  تھے، آئے ہیں ہے اور انہوں نے بیعت کی ہے۔ اور اسلام لائے ہیں۔ (انہوں نے) مجھے ایک بات سنائی ہے جو اس کے مطابق ہے جو میں تمہیں مسیح دجال (جھوٹے مسیح) کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ لخم اور جذام کے تیس لوگوں کے ساتھ ہیں سمندری بیڑے میں سوار ہوئے۔ سمندر کی موج (سمندری طوفان) مہینہ بھر انہیں سمندر میں ادھر  ادھر پٹختی رہی، یہاں تک کہ (ایک دن) غروب آفتاب کے وقت وہ سمندر میں ایک جزیرے کے کنارے جا لگے، وہ بیڑے کی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے تو انہیں موٹے اور گھنے بالوں والا ایک جاندار ملا۔ بالوں کی کثرت کی بنا پر لوگوں کو اس کے آگے اور پیچھے کا پتہ نہ چلتا تھا۔ انہوں نے اس سے کہا: تیری خرابی! توکیا چیزہے؟ اس نے کہا میں جساسہ (بہت زیادہ جاسوسی کرنے والی) ہوں، انہوں نے کہا: جساسہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم لوگ دیر (راہبوں کی عمارت) میں موجود اس شخص کی طرف چلو، وہ تمھاری خبروں کا سخت مشتاق ہے۔ جب اس نے ایک شخص کا نام لیا تو ہمیں اس کے بارے میں خوف ہوا کہ یہ (جساسہ) کوئی شیطان ہے۔ انہوں نے کہا: ہم تیزی سے چلتے ہوئے اس دیر میں داخل ہوئے تو وہاں: جو ہم نے کبھی دیکھا ہو، اس سے زیادہ عظیم الخلقت انسان تھا، جو انتہائی سختی سے بندھا ہوا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، اس کے گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک کا حصہ لوہے (کی زنجیروں) کے ساتھ جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا: تیرا برا ہو تو کون ہے؟ اس نے کہا تمہیں میرے بارے میں جاننے کا موقع مل گیا۔ اس لیے تم مجھے بتاؤ کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، ہم سمندر میں (بیڑےپر) سوارے ہوئے اور اتفاقاً اس وقت سمندر میں اترے جر اس میں بڑا طوفان تھا ایک مہینے تک موجیں ہمارے ساتھ کھیلتی رہیں، پھر ہم تمہارے اس جزیرے کے کنارے آ ملے۔ ہم اس (بیڑے) کی کشتیوں میں بیٹھے اور جزیرے میں آ گئے، ایک موٹے گھنے بالوں والا جاندار ملا، بالوں کی کثرت کی بنا پر ہمیں اس کے آگے پیچھے کا بھی پتہ نہیں چلا، ہم نے کہا: تمہارے لیے برائی ہو! تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں۔ ہم نے کہا اور جساسہ کیا ہے؟ اس نے کہا: اس آدمی کے طرف چلو جو اس دیر کی عمارت میں ہے۔ وہ تمہاری خبروں کا سخت مشتاق ہے۔ ہم جلدی سے تمہارے پاس پہنچ گئے ہیں، اس سے ہمیں سخت ڈر لگا ہے۔ ہم اس بات سے خود کو محفوظ نہیں سمجھتے کہ وہ کوئی مادہ شیطان ہو۔ اس نے کہا: مجھے (علاقہ) بیسان کی کھجوروں کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: تم ان کی کس بات کی خبر معلوم کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں تم سے اس کے کھجور کے درختوں کے بارے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ پھل دیتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا: ہاں، اس نے کہا: وہ وقت قریب ہے کہ وہ پھل نہیں دیں گے۔ اس نے کہا: مجھے بجیرۂ طبریہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: اس کی کس بات کے خبر چاہتے ہو؟ اس نے  کہا: کیا اس میں پانی ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں بہت پانی ہے، اس نے کہا: قریب ہے کہ اس کا پانی (گہرائی میں) چلا جائے۔  اس نے کہا: مجھے (شام کے علاقے) زعر کے چشمے کے بارے میں بتاؤ، انہوں نے کہا: اس کی کس بات کی خبر چاہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا چشمے میں پانی ہے اور کیا وہاں کے باشندے چشمے کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں؟ ہم نے اسے کہا: ہاں، اس میں بہت پانی ہے اور اس کے باشندے اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اس نے کہا: مجھے امیوں (اہل عرب) کے نبی کے بارے میں بتاؤ، اس نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ میں سکونت پذیر ہو گئے ہیں۔ اس نے کہا: کیا عرب نے اس کے ساتھ جنگیں لڑیں؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: اس نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ تو ہم نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ارد گرد کے عربوں پر غالب آ گئے ہیں۔ اور انہوں نے آپﷺ کی اطاعت اختیار کر لی ہے۔ انہوں نے کہا: اس نے ان سے کہا: یہ ہو چکا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: یہ بات ان کے لی بہتر ہے کہ وہ اس نبیﷺ کی اطاعت کریں۔ اور میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں ہی مسیح دجال ہوں اور مجھے عنقریب نکلنے کی اجازت مل جائے گی۔ میں نکل کر زمین میں (ہر جگہ) جاؤں گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا کوئی بستی نہیں چھوڑوں گا، چالیس راتوں کے اندر سب (بستیوں) میں اتروں گا۔ وہ دونوں (مکہ اور مدینہ) میرے لیے حرام کر دیے گئے ہیں۔ میں جب بھی کسی ایک میں یا ( کہا:) دونوں میں سے ایک میں داخل ہونا چاہوں گا، ایک فرشتہ میرے سامنے آجائے گا جس کے ہاتھ میں سونتی تلوار ہو گی۔ وہ مجھے اس (میں جانے) سے روک دے گا۔ ان کے ہر راستے پر فرشتے اس کا پہرہ دے رہے ہوں گے۔ (فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا نے) کہا: رسول اللہﷺ نے اپنے عصا مبارک منبر پر مارا اور فرمایا: ’’یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے۔‘‘ آپ کی مراد مدینہ تھی۔ ’’خبردار! کیا میں نے تمہیں یہ باتیں بتائی نہ تھیں؟‘‘ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تمیم کی بات اچھی لگی، وہ اس کے مطابق ہے جو میں نے تم لوگوں کو بتایا تھا اور جو کچھ مکہ اور مدینہ کے متعلق بتایا تھا۔ یاد رکھو! وہ شام کے سمندر میں ہو سکتا ہے یا یمن کے سمندر میں ہو سکتا ہے نہیں بلکہ مشرق کی طرف ہو گا، جو بھی وہ ہے مشرق کی طرف ہو گا۔ جو بھی وہ ہے مشرق کی طرف ہوگا۔ جو بھی وہ ہے مشرق کی طرف ہو گا۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ انہوں  (حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا: میں یہ (حدیث) رسول اللہ سے (سن کر) حفظ کر لی۔