باب: آخرت میں مؤمن اپنے رب سبحانہ وتعالی کا دیدار کریں گے
)
Muslim:
The Book of Faith
(Chapter: Affirming that the believers will see their Lord, Glorious is he and most high, in the hereafter)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
465.
حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓسےروایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں (آپ سے) عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیاہم قیامت کے دن اپنےرب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (ہاں) فرمایا: ’’ کیا دو پہر کے وقت صاف مطلع میں، جب ابر نہ ہوں، سورج کو دیکھتے ہوئے تمہیں کوئی زحمت ہوتی ہے؟ اور کیا پورے چاند کی رات کو جب مطلع صاف ہو اور ابر نہ ہوں تو چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کےرسول نہیں! فرمایا: ’’قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنے میں اس سے زیادہ دقت نہ ہوگی، جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا: ہر امت اس کے پیچھے چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتی تھی۔ کوئی آدمی ایسا نہ بچے گا جو اللہ کے سوا بتوں اور پتھروں کو پوجتا تھا مگر وہ آ گ میں جا گرے گا حتی کہ جب ان کے سوا جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، وہ نیک ہوں یا بد، اور اہل کتاب کے بقیہ (بعد کے دور) لوگوں کےسوا کوئی نہ بچے گا، تو یہود کو بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے، تو کہا جائے گا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ بیٹا، تو (اب) کیا چاہتے ہو؟ کہیں گے: پروردگار! ہمیں پیاس لگی ہے ہمیں پانی پلا۔ تو ان کو اشارہ کیا جائے گا کہ تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر ا نہیں اکٹھا کر کے آگ کی طرف ہانک دیا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ رہا ہو گا، اوروہ سب (ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے۔ پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے کہاجائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے مسیح کو پوجتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ کوئی بیٹا، پھر ان سے کہا جائے گا! (اب) تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم پیاسے ہیں، ہمارے پروردگار! ہمیں پانی پلا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کواشارہ کیا جائے گا، تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انہیں اکٹھا کر کے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی (اور) اس کا ایک حصہ (شدت اشتعال سے) دوسرے کو توڑ رہا ہو گا، وہ ( ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے، حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالیٰ (ہی) کی عبادت کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، (تو) سب جہانوں کا رب سبحان و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر (یا مختلف) صورت میں آئے گا (اور) فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر امت اس کے پیچھے جا رہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی۔ وہ (سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر) التجا کریں گے: اےہمارے رب! ہم دنیا میں سب لوگوں سے، جتنی شدید بھی ہمیں ان کی ضرورت تھی الگ ہو گئے، ہم نے ان کاساتھ نہ دیا۔ وہ کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ ان میں بعض لوگ بدلنے کے قریب ہو ں گے، تو وہ فرمائے گا: کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی (طے) ہے، جس سے تم اس کو پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے: ہاں! تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا، اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کےلیے یا دکھاوے کےلیے سجدہ کرتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک ہی مہرہ بنادے گا، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا۔ پھر وہ (سجدے سے) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں آ چکا ہو گا جس میں انہوں نے اس کو (سب سے) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ تووہ کہیں گے: (ہاں) تو ہی ہمارا رب ہے۔ پھر جہنم پر پل دیا جائے گا اور سفارش کا دروازہ کھل جائے گا، اور (سب رسول) کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جسر (پل) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’بہت پھسلنی، ڈگمگا دینے والی جگہ ہے، اس میں اچک لینےوالے آنکڑے اور کئی کئی نوکوں والے کنڈے ہیں، اور اس میں کانٹے دار پودے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے۔ تو مومن آنکھ کی جھپک کی طرح اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے، کوئی صحیح سالم نجات پانے والا ہو گا اور کوئی زخمی ہو کر چھوڑ دیا جانے والا، اور کچھ جہنم کی آگ میں تہ بہ تہ لگا دیے جانے والے، یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے، تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے (کے معاملے) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے، جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا، ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کےدل میں دینار بھر خیر (ایمان) پاؤ اس کو نکال لاؤ، تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم نے دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ، تو وہ (پھرسے) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔‘‘ (ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہوسکتا ہے ۔)
ابو سعید خدری ؓکہا کرتے تھے: اگر تم اس حدیث میں میری تصدیق نہیں کرتے، تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اس کو بڑھاتا ہے او راپنی طرف سے اجر عظیم دیتا ہے۔‘‘ ’’پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا، تو وہ آ گ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا، اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر (بہنے والی) ایک نہر میں ڈال دے گا، جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے، وہ اس طرح (اُگ کر) نکل آئیں گے جس طرح (گھاس کا) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے، کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو کہ کبھی وہ پتھر کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور کبھی درخت کے ساتھ، جوسورج کے رخ پر ہوتا ہے، وہ زرد اور سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے، وہ سفید ہوتا ہے ؟‘‘ صحابہؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا لگتا ہے کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تووہ لوگ (نہرسے) موتیوں کے مانند نکلیں گے، ان کی گردنوں میں مہریں ہو ں گی، اہل جنت (بعد ازاں) ان کو ( اس طرح) پہچانیں گے، کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بغیر کسی نیکی کے جو انہوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر وہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ! اور جو تمہیں نظر آئے وہ تمہارا ہے ، اس پر وہ کہیں گے : اےہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سےکسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمہارے میرے پاس اس سے بڑھ کر کون سی چیز ( ہوسکتی ) ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میری رضا کہ اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔‘‘
امام مسلم نےصحیح مسلم کاآغازکتاب الایمان سےکیاہے۔عہدنبویﷺمیں جب قرآن نازل ہوااوررسول اللہﷺ نےایمان،اسلام اوراحسان کی تعلیم دی تواس وقت ان اصطلاحات کےمفہوم کےبارےمیں کسی کےدل میں کوئی تشنگی موجودنہ تھی۔لیکن آپﷺ کی رحلت کےبعدکچھ لوگوں نےایمان اوراسلام کےاسی مفہوم پراکتفانہ کیاجوصحابہ نےبراہ راست رسول اللہﷺ سےسمجھااوردوسروں کوسمجھایاتھا، انہوں نےاپنی اغراض یااپنےاپنےفہم کےمطابق ان دونوں کےنئےنئےمفہوم نکالنےشروع کردیے۔
سب سےپہلاگروہ جس نےایمان اورکفرکامفہوم اپنی مرضی سےنکالا،خوارج تھے۔ یہ گنوارلوگ تھے۔ قرآن اوراسلام کےبنیادی اصولوں کی تعبیربھی اپنی مرضی سےکرتےتھے۔ قبل ازاسلام کےڈاکوؤں کی طرح لوگوں کوقتل کرتےاوران کامال لوٹتے۔ مسلمانوں کےخلاف ان تمام جرائم کےجوازکےلیے انہوں نےیہ عقیدہ نکالاکہ گناہ کبیرہ کامرتکب کافرمطلق ہے۔ ان کےنزدیک ایمان محض عمل کانام تھا۔ صحیح مسلم کی حدیث:473(191)میں ان کےاس عقیدےکاذکرہے۔
حضرت عمرکےدورمیں جب اسلامی فتوحات کادائرہ وسیع ہواتوعراق،فارس،شام اورمصروغیرہ کےعلاقےاسلامی قلمرومیں داخل ہوئےاوریہاں کےباشندےبڑی تعدادمیں مسلمان ہوئے۔ یہاں کےلوگوں کےدینی افکارپرعلوم عقلیہ کی چھاپ نمایاں تھی۔ اسلام میں داخل ہونےکےبعداپنےاپنےافکارکےحوالےسےان کےمتعددفرقےسامنےآئے۔ ان لوگوں نےایمان اوراسلام کےحوالےسےفلسفیانہ اورمنطقی سوالات علمائےاسلام کےسامنےپیش کرنے کرنے شروع کر دیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا مقصد تو فہم اور حصول علم تھا جبکہ کچھ لوگ خوارج کی طرح فتنہ انگیزی کے لیے ان سوالوں کو زیر بحث لاتے تھے۔ ان بہت سے سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ تقدیر سے مراد کیا ہے اور کیا اس کو مانا بھی ایمان کا حصہ ہے یا نہیں ۔ علمائے اسلام کو بہر طور ان سوالوں کے جواب دینے تھے۔ ہر ایک نے اپنے ذخیرہ علم اور اپنے فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔
اس دور کے مباحث کے حوالے سے فقہائے محدثین کے سامنے ایمان کے بارے میں جو سوالات پیش ہوئے وہ اس طرح تھے:
٭ ایمان کیا ہے؟ محض علم ،محض دل کی تصدیق ،محض اقرار ،عمل با ان میں سے بعض کا یا ان سب کا مجموعہ؟
٭ اسی طرح یہ بھی سوال اٹھا کہ ایمان رکھنے والے سب برابر ہیں یا کسی کا ایمان زیادہ اور کسی کا حکم ہے؟
٭ کیا ایک عام امتی کا ایمان صدیق اکبر یا عمر فاروق یا علی بن ابی طالب کے ایمان کے برابر ہوسکتا ہے؟
٭ کیا ایک امتی کا ایمان انبیاء اور ملائکہ کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے؟ کیا ایمان اور چیز ہے اور عمل چیزے دیگر؟
٭ کیا ایمان ہمیشہ ایک جتنا رہتا ہے یا کم و بیش ہوسکتا ہے؟
٭ کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے؟ ان میں تقدیر بھی شامل ہے یا نہیں؟
٭ یہ سوال بھی شدت سے زیر بحث رہا کہ کبائر کا مرتکب مسلمان ہے، یا دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہے، یا پھر کہیں درمیان میں ہے؟
معبد جہنی ،جہم بن صفوان اور اس دور کے فرقہ قدریہ سے تعلق رکھنے والے ابوحسن صالحی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی معرفت یا دل میں جان لینے کا نام ہے اورکفر الجهل بالرب تعالی ’’ الله تبارک وتعالی کو نہ جانے کا نام ہے۔‘‘ اس جواب سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ فرعون مومن تھا کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ نے فرمایا، اسے علم تھا کہ اللہ ہی آسمانوں وزمین کا رب ہے۔ ارشاد الہی ہے:
(قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ)
’’ تو نے جان لیا ہے کہ ان چیزوں کو نشانیاں بنا کر آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں
اتارا ۔ بني اسراءيل 17:102)
اہل کتاب کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
(يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ)
’’وہ رسول اللہﷺ کوپہچانتےہیں جس طرح اپنی اولادکوپہچانتےہیں۔ ‘‘(البقرہ 146:2)
اس نقطہ نظرکےمطابق یہ سب بھی مومن ہوئے۔ ابلیس بھی جواللہ تبارک وتعالیٰ کےبارےمیں بےعلم نہیں، مومن قرارپایا۔ نعوذبالله من ذلك.
اس بنیادی سوال کے حوالے سے فرقہ کرامیہ کا جواب یہ تھا کہ ایمان محض زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں منافق بھی کامل ایمان رکھنے والے مومن قرار پاتے ہیں۔ کرامیہ ان کو مومن ہی سمجھتے تھے، البتہ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے جس عذاب کی خبر دی ہے اسے وہ ضرور بھگتیں گے۔
ابومنصور ماتریدی اور امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی تصدیق کا نام ہے۔ ان کے بالمقابل
علمائے احناف میں سے ایک بڑی تعداد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔
زیادہ تر ائمہ کرام، مثلا: امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور باقی تمام ائمہ حدیث کے علاوہ ظاہریہ اورمتکلمین میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ايمان تصديق بالجنان،واقرارباللسان وعمل بالاركان’’ایمان دل کی تصدیق،زبان کےاقراراور(اس تصدیق واقرارکےمطابق باقی)اعضاءکےاعمال سےثابت ہوتاہے۔‘‘یادرہےکہ محدثین دل کی تصدیق کودل کاعمل اورزبان کےاقرارکوزبان کاعمل سمجھتےہیں۔ (شرح العقيده الطحاوية ،قوله:والايمان هوالاقرارباللسان....ص:332)
قدریہ،جہمیہ اورکرامیہ تواہل سنت والجماعت سےخارج تھے۔ ان کاردیقیناضروری تھااوراچھی طرح کیابھی گیا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اوران کےمؤیدین کےلیے،جوغیرنہیں،خوداساطین اہل سنت والجماعت میں سےتھے،فرامین رسول اللہﷺ کےذریعےسےاصل حقائق کی وضاحت انتہائی ضروری تھی۔
ایمان کےبارےمیں مذکورہ بالابنیادی سوالات کےجواب میں امام ابوحنیفہسےیہ باتیں منقول ہیں:
(الف)(العمل غيرالايمان والايمان غيرالعمل))
’’عمل ایمان سےجداہےاورایمان عمل سےالگ ہے۔ ‘‘
(ب)المومنون مستوؤن فى الايمان والتوحيد،متفاضلون فى الاعمال)
’’مومنین ایمان اورتوحیدمیں برابرہیں اوراعمال میں کم وبیش۔ ‘‘
(ج)الايمان لايزيدولاينقص
’’ایمان نہ گھٹتاہےنہ بڑھتاہے۔ ‘‘
(د)ايماني كايمان جبرئيل
’’میراایمان جبریل کےایمان کےمانندہے۔‘‘
(و)ايمان اهل السماوات والارض وايمان الاولين والاخرين والانبياءواحد
’’آسمانوں اورزمین والوں کاایمان اوراگلوں پچھلوں اورانبیاءکاایمان ایک (برابر)ہے۔ ‘‘(شرح الفقه الأكبربحواله إيضاح الأدلة ،ص:301-308)
امام بخاری،امام مسلم اوردیگرائمہ حدیث کےسامنےچونکہ پوراذخیرہ حدیث تھا،اس لیے انہیں معلوم تھاکہ یہ باتیں نہ صرف کتاب وسنت سےٹکراتی ہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جن جن الفاظ کےساتھ قرآن نےیارسول اللہﷺ نےان امورکوبیان فرمایاہےبعینہ انہی الفاظ کواستعمال کرتےہوئےبالکل متضادباتیں کہہ دی گئی ہیں،اورایک بڑےحلقےمیں ان کوقبول بھی کیاجارہاہے۔اس کاصحیح مداوایہی تھاکہ جولوگ بھی قرآن اورحدیث رسول اللہﷺ سےمتضادباتیں کہہ رہےتھے،ان کےسامنےرسالت مآب ﷺ کےتمام متعلقہ فرامین من عن پیش کردیئےجائیں۔
کتاب الایمان میں امام مسلم سب سےپہلےحدیث جبریل لائےہیں۔ اس میں رسول اللہﷺ نےحضرت جبریل کےپیش کردہ سوالوں کوجواب دیتےہوئےایمان،اسلام اوراحسان کامفہوم واضح کیاہے۔امام مسلمنےاس کےساتھ ہی اس مفہوم کی دوسری احادیث بھی بیان کردی ہیں۔ ان احادیث 93۔103۔(8۔12)سےپتہ چلتاہےکہ ان تینوں (ایمان،اسلام،اوراحسان)میں ابتدائی مرتبہ اسلام کاہے،اس سےاونچامقام ایمان کاہےاورسب سےاونچااحسان کا۔ اوریہ کہ اللہ، اس کےرسول،ملائکہ ،قیامت ،جنت اوردوزخ کےساتھ ساتھ تقدیرالہیٰ پربھی ایمان لاناضروری ہے۔ اسی طرح ان احادیث سےیہ بات بھی واضح ہوجاتی ہےکہ گناہ کبیرہ کامرتکب ابدی جہنمی نہیں ہوتا۔
اس کےبعدامام مسلم ایسی احادیث لائےہیں جن میں یہ مذکورہ ہےکہ وہ ایمان جوانسان کوجنت میں لےجاتاہےشرک سےپاک عبادات ،زکاۃ کی ادائیگی ،صلہ رحمی اوراللہ کےحرام وحلال کےاحکامات کی پابندی پرمشتمل ہے۔ (دیکھیے،احادیث :104۔114(13۔16)
پھروہ وفدعبدالقیس سےمتعلقہ روایات اوران کےہم معنی احادیث لائےہیں ۔ رسول اللہﷺنےوفدکےلوگوں کوحکم دیاکہ وہ اکیلےاللہ پرایمان لائیں،پھرسمجھانےکےلیے خودہی سوال کیاکہ کیاتم جانتےہوکہ اکیلےاللہ پرایمان کیاہے۔ پھرخودہی وضاحت فرمائی کہ ایمان اللہ کی وحدانیت اورمحمدﷺ کی رسالت کی گواہی ،اقامت صلاۃ،زکاۃ کی ادائیگی روزےرکھنےاوراللہ کی حرام کردہ اشیاءسےدوررہنےکانام ہے۔ (دیکھیے،احادیث :115۔123(17۔19)
ان احادیث سے تین باتیں واضح ہو جاتی ہیں:
1۔ گواہی (شہادت) دل کی تصدیق کی ہوتی ہے۔
2۔ ایمان حق دل کی تصدیق کا نام نہیں نہ دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار تک معامل ختم ہو جاتا ہے بلکہ باقی اعضاء و جوارح کے اعمال کے ذریعے سے بھی اسی حقیقت کی تصدیق ضروری ہے جس کی زبان سے گواہی دی گئی۔
3۔ ایمان اور اسلام کے الفاظ جب دونوں ملا کر ایک ساتھ بولے جائیں تو دونوں سے الگ الگ مفہوم مراد لیا جاتاہے۔ جب ان میں سے صرف ایک بولا جائے تو اس کے معنی میں بعض اوقات دوسرا بھی شامل ہوتا ہے اور بعض اوقات دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام کے طور پر بولے جاتے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایمان محض تصدیق و اقرار کا نام نہیں بلکہ اس میں دیگر اعضاء کے اعمال بھی شامل ہونے ضروری ہیں، ورنہ یہ اسلام کے قائم مقام کے طور پر نہ بولا جا سکتا۔
اس کے بعد امام مسلم مانعین زکاة کے حوالے سے وہ احادیث لائے ہیں جن میں حضرت عمر اور حضرت ابو بکر ؓ کے الگ الگ موقف کا ذکر ہے۔ حضرت عمر کا خیال تھا کہ جس نے لا إله إلا الله کہہ دیا وہ مومن ہے اس لیے بقول رسول اللہ ﷺجان اور مال کے تحفظ کا حق دار ہے، اس سے جنگ نہیں کی جاسکتی۔ لا إله إلا الله کہنے سے اقرار اور اغلبا تصدیق کا تو پتہ چل جاتا ہے لیکن حضرت ابو بکر صدیق کا موقف اس سے مختلف تھا۔ انھوں نے فرمان رسول اللہ ﷺکے اگلےحصہ طرف توجہ دلائی۔ آپ نےفرمایاتھا: ((الاّبحقه)) الایہ کہ اسی کاحق ہو‘‘یعنی لا إله إلا الله كاحق یہ ہےکہ باقی اعضاءاسکےمطابق عمل کرتےہوں۔ جب زکاۃ کاوقت آجائے تو لا الہ کا تقاضا ہے کہ زکاة ادا کی جائے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو اس کے لیے جان و مال کا تحفظ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے زور دے کر یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی زکاة کے مال کی ایک رسی دینے سے بھی انکار کرے گا تو اس کے خلاف جہاد ہوگا۔ اس بات سے حضرت عمر نے بھی اتفاق کیا اور تسلیم کیا کہ وہی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق کہہ رہے ہیں۔ دیکھیے،احادیث :124۔131(20۔23)
ان کےبعدوہ احادیث لائی گئیں جن کےالفاظ میں اجمال کےساتھ اس بات پرزوردیاگیاکہ جس نے لا إله إلا الله کہاوہ یقیناجنت میں داخل ہوگا۔ (دیکھیے،احادیث:136۔151(26۔36) ان احادیث کےذریعےسےیہ بات واضح ہوتی ہےکہ اجمال کےموقع پرمحض لا إله إلا الله کہنےکی بات کی گئی لیکن اس میں لا إله إلا الله کےتقاضوں پرعمل کرناشامل ہے۔ پھریہ روایت پیش کی گئی کہ ایمان کاذائقہ محض وہی شخص چکھتاہےجواللہ کےرب ہونےاورمحمدﷺکےرسول ہونےکےساتھ ساتھ اسلام کےدین ہونےپربھی راضی ہو۔ ظاہرہےجواستطاعت کےباوجوداحکام اسلام پرعمل نہیں کرتاوہ دل سےاسلام کےدین ہونےپرراضی ہی نہیں ہے۔ یہ انتہائی لطیف نکات ہیں جوامام مسلم نےمحض احادیث مبارکہ کی ترتیب کےذریعےسےواضح فرمائےہیں۔
پھر امام مسلم نے بالترتیب ایمان کے شعبوں اور ان میں سے افضل اور ادنی شعبوں کے متعلق احادیث پیش کیں۔
ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایمان کی حلاوت سے وہی آشنا ہوتا ہے جو اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان سے محبت کرتا ہے۔ ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ اہل و عیال، اولا و، مال اور خود اپنی ذات سے بڑھ کر محبت نہ ہو تو ایمان موجود نہیں۔ ظاہر ہے محبت تصدیق اور اقرار کے علاوہ دل کا ایک اور عمل ہے۔ (دیکھیے ، أحاديث: 152- 169(44) اس کے بغیر بھی ایمان کی نفی ہو جاتی ہے۔ گویا تصدیق بالقلب کے علاوہ قلب ہی کے دوسرے اعمال ، مثل : محبت اور احترام بھی ضروری ہیں۔
امام مسلم احادیث 177- 180(50) میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات لائے ہیں ۔ تفصیلی روایت میں رسول اللہﷺ کے الفاظ اس طرح ہیں: جس نے ان (منکرات کے خلاف ہاتھوں سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔ جس نے زبان کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے دل کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے۔ اس سے نیچے ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ۔‘‘ ان الفاظ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح بعض لوگوں نے کہا ہے محض دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار ایمان نہیں، بلکہ دیگر اعضاء، زبان اور خود دل کے دیگر اعمال بھی ضروری ہیں۔ تصدیق کے علاوہ دل کے دوسرے اعمال میں منکرات سے نفرت اوریہ عزم کہ جب ہاتھ اور زبان سے ان منکرات کے خلاف جہاد کی استطاعت ملے گی تو یہ جہاد کروں گا ، شامل ہیں ۔ دل کے مزید اعمال، مثلا : الحب في الله والبغض في الله کے بارے میں بھی احادیث پیش نظررہنی چاہییں ۔ ان احادیث سے جہمیہ کے نقطہ نظر کی تردید بھی ہوتی ہے کہ دل کی تصدیق کے سوا دل کے دوسرے اعمال ایمان نہیں ۔ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے جہاد کرنے والے کا ایمان زیادہ ہے کیونکہ اس میں باقی اعضاء بھی زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ زبان سے جہاد کرنے والے کا اس سے کم، اس میں زبان کے ساتھ دل شریک ہوتا ہے۔ اور محض دل میں برا برسمجھنے والے کا ایمان سب سے کم ہے، کیونکہ باقی اعضا شامل نہیں ہوتے ۔ اس کے اپنے سرے سے ایمان ہی موجود ہیں۔
ان کے بعد امام مسلم نے وہ احادیث ذکر کی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کا ایمان کن کن اعمال کی بنا پرافضل ہے اور کن لوگوں کا ایمان کم مرتبہ ہے، نیز ایمان کو یمن کی طرف نسبت دی گئی ہے اور اس کا سبب ان کے دلوں کی رقت کو قرار دیا گیا۔ اور کفر کی نسبت ان اونٹ چرانے والوں کی طرف کی گئی جو شدت پسند اور تندخو تھے۔ (دیکھیے ، أحاديث : 181-51193-53) ان احادیث سے امر بالمعروف والی احادیث کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ دل کی تصدیق کے علاوہ دل ہی سے متعلق دیگر ایسے اعمال ہیں جو ایمان کا حصہ ہیں۔ اسی طرح عدم تصدیق کے ساتھ دل ہی کےبعض دیگر عمل ہیں جو کفر کو سنگین تر بنا دیتے ہیں ۔ ایسے اعمال میں سنگ دلی ، شدت پسندی وغیرہ شامل ہیں۔
قرآن مجید نے ایمان اور اس میں اضافے کو دل ہی کی کیفیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ فرمان الہی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾
’’مومن وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت
کی جائیں تو یہ آیتیں ان کا ایمان زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ الأنفال 8:2)
احادیث کی ترتیب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ منکرات سے شدید نفرت، دل کی نرمی، اللہ کے ذکر پر دلوں میں خشیت ، سب ایمان میں شامل ہیں، یہ محض دل کی تصدیق کا نام نہیں ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آیات الہی کی سماعت سے ایمان، جو مذکورہ بالا تمام باتوں کا مجموعہ ہے، زیادہ ہو جاتا ہے۔ جو حضرات نفس ایمان میں اضافے کے قائل نہیں بلکہ نزول قرآن کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ آیتوں پر ایمان لانے کو ایمان کا اضافہ قرار دیتے ہیں، ان کو اس آیت کے معنی قرار دینا پڑیں گے کہ جب پہلی دفعہ کوئی آیت ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسری یا تیسری بارانہی آیات کو سن کر ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اور آیت مبارکہ میں جس طرح تلاوت آیات سے پہلے ذکر الہی کا بیان ہے اسے بھی وہ پہلی بار اللہ کے ذکر پرمحمول کریں گے۔قرآن کےالفاظ ﴿ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ﴾ اور﴿ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ﴾ ‘‘جب اللہ کاذکرکیاجاتاہے اورجب اس کی آیتیں ان کےسامنےتلاوت کی جائیں‘‘سےایسےمفہوم کی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔
اس کے بعد احادیث : 2012- 209(57) کے ذریعے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں کی واقع ہوتی ہے، نیز گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے وقت ایمان انسان کے دل سے نکل جاتا ہے، بعد میں واپس آجاتا ہے۔ ان احادیث کو اگر ہر گناہ کے ساتھ دل پر ایک کالا نکتہ آ جانے اور گناہوں کی کثرت سے دل کے مکمل سیاہ ہو جانے والی احادیث کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برے اعمال کے ارتکاب سے دل کے اندر موجودنور ایمان کم ہوتا ہوتا بالآخر رخصت ہو جاتا ہے، اسی طرح اچھے عمل کرنے سے نور ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ اقوال کہ میرا ایمان جبریل کےایمان کی طرح ہےیااولین،آخرین ،اہل دنیا،اہل سماءاورانبیاءسب کاایمان برابرہے،مذکورہ احادیث سےبالکل متضادہیں۔
ان کےبعدکی احادیث میں بعض ایسےاعمال کاتذکرہ ہےجن کورسول اللہﷺ نےکفرقراردیاہے۔ ان کےبعدوہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہﷺ نےایمان کوعمل قراردیاہے۔ آپﷺ سےپوچھاگیا(اي الاعمال افضل)افضل ترین عمل کون ساہے؟فرمایا:الايمان بالله عزوجل...الخ-"اللہ عزوجل پرایمان لانا...‘‘(دیکھیے،احادیث:248۔251(83۔85)یہ قول کہ الايمان غير،والعمل غيران فرامین رسول ﷺ سےبالکل متضادہے۔
پھر ان احادیث کو لایا گیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی طرح کفر میں بھی کمی اور زیادتی ہوتی ہے، مثل : تارک صلاة یا باہم قتال کر نے والوں کا کفر قطعی اور حتمی کفر سے کم تر ہے۔ ان احادیث کے بعد کبائر کے درجات کے حوالے سے احادیث مبارکہ کو لایا گیا، پھر وہ احادیث ہیں جن میں کبر اور شرک کو ایمان سے متضاد قرار دیا گیا اور شرک نہ کرنے کو جنت میں داخلے کی شرط اور شرک کرنے کو جہنم میں داخلے کا حتمی سبب قرار دیا گیا۔ کبراور شرک دونوں دل اوراعضاء کے عمل ہی کی صورتیں ہیں محض دل کی عدم تصدیق کی نہیں۔
پھر وہ احادیث بیان ہوئیں جن میں ذکر ہے کہ ایمان میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا ہے، کم ترین ایمان یہ ہے کہ کوئی تخص اچانک موت کو سامنے دیکھ کر اسلام سے عداوت اور عناد کے فورا بعد غور و فکر کے بغیر، یکدم لا إله إلا الله کا اقرار کر لے۔ یہ سب سے نچلا درجہ ہے۔ جب ایساواقعہ پیش آیا تو موقع پر موجود صحابی کا ظن غالب یہ تھا کہ ایسے شخص کی زبان پر اقرار تھا لیکن اس کے پیچھے جان بچانے کا ارادہ تھا، تصدیق کا کوئی جز موجود نہ تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺنے زور دے کر فرمایا کہ اس نے جو لا إله إلا الله کہہ دیا تھا تو یہ دلیل ہے کہ ایمان کا یہ جز موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب لا إله إلا الله تمھارے سامنے کھڑا ہو جائے گا تو کیا کرو گے؟ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو یہ سمجھے کہ اس کے دل میں جان بچانے کے قصد کے علاوہ کچھ نہیں تھا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ دیکھیے ، أحاديث: 279۔274(95۔97) ان کے ساتھ اس حدیث کو ملا کر دیکھیں جس میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آئے تو اس پر حملہ نہ کرو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرض اقرار یاعمل سامنے آجائے تو اسے ایمان سمجھا جائے جب تک اس کی دلیل موجود نہ ہو جو کفر پر دلالت کرے۔
پھر وہ احادیث ہیں جن میں ہی فرمایا گیا ہے کہ جس نے کافر ہو جانے کی جھوٹی قسم کھائی وہ اسی طرح (کافر) ہے جس طرح اس نے کہا۔ ایسے شخص کی یہ قسم کہ وہ کافر ہے، تب جھوئی ہوگی جب اس کے دل میں کسی نہ کسی درجے کا ایمان موجود ہو، اور اس قسم کی بنا پر اس کے دل میں کفر کا غصہ بھی موجود ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے دل میں اسلام اور کفر دونوں کی متضاد کیفیتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ چونکہ مذکورہ بالا کبائر کے مرتکب لوگوں کے ہاں کچھ اعمال صالحہ بھی موجود ہو سکتے ہیں جو کسی حد تک ان کے دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کی تصدیق کرتے ہیں،اس لیے ان کو اسلام سے قطعی طور پر خارج قرار نہیں دیا گیا لیکن ان کے دلوں میں ایمان کی کمی کی وجہ سے ایسی کیفیت بھی موجود ہے جس کے سبب سے وہ کفر یہ اعمال کا ارتکاب کرتے جارہے ہیں ۔ یہ انتہائی باریک نکات ہیں جو امام مسلم نے احادیث کے انتخاب اور ان کی ترتیب سے اجاگر کیے ہیں۔
اسی طرح ایساشخص جو خودکشی کر لے اس کی سزا ابدی جہنم ہے جوقطعی کفر یا شرکت کی سزا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے یہ بھی اعلان کر ایا کہ نفس مسلمہ یا مومن انسان کے علاوہ کوئی جنت میں نہ جائے گا لیکن یہ بھی ہوا کہ ایک شخص نے ہجرت کے بعد مشکلات بھری زندگی سے تنگ آ کر ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر خودکشی کرلی، الله تعالی نے ہاتھوں کے علاوہ اس کے باقی وجود کو خوش دیا۔ ہاتھ ویسے رہے تو رسول اللہ اﷺ نے اس کے ہاتھوں کے لیے بھی بخشش کی دعا فرمادی۔
اس حدیث سے اور اس سے پہلے والی احادیث سے پتہ چلا کہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب ایمان یا تو بہت کم ہو جاتا ہے یا بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ختم ہو جانے کی صورت میں ان کی سزا جہنم بلکہ ابدی جہنم ہے لیکن اگر وہی گناہ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جس کے دل سے ایمان قطعی طور پر رخصت نہیں ہوا تھا تو ایمان کی کم از کم مقدار بڑے گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ (دیکھیے ، احادیث : 300-308 (109-112)
آگے چل کر وسوسوں کی بات ہے۔ احادیث :340-342 (132-3) میں دل میں آنے والے ایسے وساوس کی کیفیت کو، جو زبان پر نہیں لائے جاسکتے صریح ایمان یامحض ایمان قرار دیا گیا ہے۔ جس کی بناپر انسان کو اللہ کا خوف لاحق ہوتاہے اور ان وساوس سے کراہت ہوتی ہے ایسے برے وسوسے دل میں موجود ہوتے ہیں جو زبان پر نہیں لائے جا سکتے۔لیکن ان کے ہوتے ہوئے اس وقت دل میں جو ایمان موجود ہے جس کی بنا پر اسے صریح، خالص اور ملاوٹ سے پاک ایمان قرار دیا گیا ہے۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے ساتھ دل میں ایسی باتیں آسکتی ہیں جنھیں ایک مومن کے لیے زبان پر لا نا ممکن نہیں۔ یہ وساوس ہیں، لیکن جب تک یہ شک بن کر دل میں جاگزیں نہ ہو جائیں ان پر مؤاخذہ نہیں۔ جاگزیں ہوجائیں تو مؤاخذہ ہے کیونکہ اب یہ دل کا عمل بن چکا ہے۔ اسی طرح نیکی کا ارادہ دل کا عمل ہے جس پر جزا ملتی ہے۔ برائی کا ارادہ بھی دل ہی کا عمل ہے لیکن اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے اس کو معاف فرما دیا ہے۔ اگر اس ارادے پر دوسرے اعضاء عمل کر کے اس کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر ایک برائی کی جاتی ہے۔
وسوسوں کی وجہ سے اہل ایمان کے دلوں کے اندر بر پا جنگ میں، اہل ایمان کی ایمان پر ثابت قدمی ، ان کے ایمان
کے خالی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ بھی دل ہی کا عمل ہے۔
احادیث 343-352 (134) میں شیطان کے اٹھائے جانے والے ایسے سوال کا تذکرہ ہے جس کا مقصد شکوک وشبہات پیدا کرنا اور ایمان و یقین کی پوری عمارت کو منہدم کرنا ہے۔ سوالوں کے سلسلے میں جب سوال سامنے آتا ہے کہ اگر ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر خود اللہ کوکس نے پیدا کیا ؟ یہ بد ترین وسوسہ ہے۔ اس کا علاج یہ بتایا گیا کہ اس مرحلے پر مومن کو چاہیے کہ فورأ رک جائے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور آمنت بالله کہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے یہ تاکید کی گئی کہ وجود باری تعالی کے لیے عقل اور حِس کی واضح دلالت موجود ہے لیکن شیطان دل میں ڈالے گئے اس سوال کے ذریعے سے انسان کو ان اشیاء کے بارے میں محض عقل کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس مرحلے پر ضروری ہے کہ انسان اپنی فطرت کی طرف رجوع کرے، اس اولین میثاق کو دہرائے جو ہر روح سے لیا گیا اور اس میثاق کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط کرے۔
اس کے بعد امام مسلم نے بڑے لطیف پیرائے میں اپنی ترتیب کو آگے بڑھایا۔ حدیث : 357۔362(137۔141) تک عہد اور حلف کی اہمیت کی احادیث بیان فرمائیں اور متعلقہ مسائل کی وضاحت کی ۔ اس کے بعد 362-366 (142) تک بڑی ذمہ دار ہوں ، مثلا : حکمرانوں کے عہد اور حلف کے بارے میں احادیث ذکر کیں، پھر اس عہد یا میثاق اول کے موضوع پر احادیث لائے جسے قرآن نے ’’الأمانة‘‘ کہا ہے۔
حدیث: 367( 143 ) میں پہلے یہ الفاظ ہیں کہ سب سے پہلے ’’الأمانة‘‘ انسانی دلوں کے اندرونی حصے میں نازل ہوئی، پھر قرآن نازل ہوا اور اہل ایمان نے قرآن اور سنت سے علم حاصل کیا، ان الفاظ میں بہت سے نکات قابل غور ہیں ۔ الأمانة وہی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا:
﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾
’’ہم نے دکھائی امانت آسانوں کو زمین کو اور پہاڑوں کو تو ان سب نے انکار کر دیا کہ اسے اٹھائیں اور اس سےڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا یہ بڑاہی ظالم اور نادان ہے۔‘‘الاحزاب33۔72)
محدثین نے امانت کے معنی ایمان کیے ہیں۔ ایمان کو ایک امانت ہی کے طور پر انسان کے سپرد کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ضروری تھی ، قرآن مجید نے یہ بات یوں بیان کی:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾
’’ اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور یہ( پوچھ کر) انھیں خود ان پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم گواہ ہیں، (یہ اس لیے کیا کہ) کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تو اس بات (اکیلے اللہ کی ربوبیت )کی خبر ہی تھی یا ایسا کہو کہ شرک تو ہمارے آباء واجداد نے کیا، ہم تو بعد میں ان کی اولاد تھے (جو انھوں نے سکھایا سیکھ گئے ۔) تو ہمیں کیوں ہلاک کرتے ہو اس کام پر جسے (دوسرے) غلط کاروں نے کیا؟ اور اس طرح ہم کھولتے ہیں آیتوں کو شاید وہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آ ئیں‘‘ الأعراف 7:172۔174)
یہی عہد وہ فطری ایمان ہے جس پر انسان کی ولادت ہوتی ہے۔ قرآن اسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
’’ پس تو ایک طرف کا ہو کر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھو، اللہ کی اس فطرت کے مطابق جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا (جائز )نہیں ۔ یہی سیدھا دین ہے، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ الروم 30:30)
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کل مولود ولد على الفطرة ‘‘(صحیح البخاري، حدیث: 1385، وصحیح مسلم، حدیث:6755 (2658) مسلم کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں
((وإني خلقت عبادي حنفاءکلهم و إنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ))
’’ میں نے اپنے تمام بندے دین حنیف کے پیرو کار پیدا کیے (پھر ) ان کے پاس شیاطین آئے اور انھیں ان کےدین سے پھیر دیا۔ صحیح مسلم، حدیث:7207(2865)
اِنَّ اللهَ تَعَالیٰ يَقُولُ لأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ : لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ ، أَكُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ ؟ فَيَقُولُ : نَعَمْ . فَيَقُول فقدسالتك ماهوأَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ : أَنْ لا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا ، فَأَبَيْتَ إِلا الشرك
’’اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سےسب سےہلکےعذاب والےسےکہےگا:زمین میں جوکچھ بھی ہےاگروہ تیری ملکیت ہوتوکیاتواسےاس(عذاب)کےبدلےفدیےمیں دےدےگا؟وہ کہےگا:جی ہاں۔ وہ (اللہ)کہےگا:میں نےتو،جب توآدم کی پشت میں تھا،تجھ سےوہ مانگاتھاجواس سےبہت کم تھا، یہ کہ تو(کسی کو)میراشریک نہ ٹھہراناپرتونےشریک ٹھہرانےکےسواہرچیزسے انکارکیا۔‘‘صحيح البخارى ،حديث:3334وصحيح مسلم،حديث:2805،7083)
یہی وہ عہدہےجس پراللہ تعالیٰ انسان کوپیداکرتاہے۔ اگرماں باپ اوردیگرعوامل انسان کواس سےمنحرف نہ کردیں تودل سےاس کی تصدیق ہوتی ہے،پھرزبان گواہی دےکراورباقی اعضاءبھی اپنےعمل سےاس کی تصدیق کرتےہیں۔
اس کےبعدباب الإسراءبرسول الله إلى السماوات وفرض الصلوات میں امام مسلم حدیث: 412۔417(162۔164)تک وہ احادیث لائےہیں جن میں دوبارہ رسول اللہﷺ کاشق صدرہونےکاتذکرہ ہے۔
پہلاواقعہ ابتدائےطفولیت کاہےجب آپ بنوسعدمیں تھے۔ اس کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
((فاستخرج القلب،فاستخرج منه علقه،فقال:هذاحظ الشيطان منك،ثم غسله فى طست من ذهب بماءزمزم ،ثم لامه ،ثم اعاده فى مكانه))
’’جبریل نےآپ کےدل کوباہرنکالا،اس میں سےایک لوتھڑاالگ کیااورکہایہ (دل کےاندر)وہ حصہ تھاجس کےذریعےسےشیطان اثراندازہوسکتاتھا، پھراسے(دل کو)سونےکےطشت میں زمزم کےپانی سےدھویا، پھراسےجوڑااوراس کی جگہ پرواپس رکھ دیا۔ ‘‘
((ففرج صدري،ثم غسله من ماءزمزم ،ثم جاءبطست من ذهب ممتليءحكمة وايمانا،فافرغهافى صدري ،ثم اطبقه ثم اخذبيدي ،فعرج بى الى السماء))
’’جبریل نے میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اسے میرے سینے میں خالی کر دیا، پھر سینے کو بند کیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور معراج پر لے گئے ۔‘‘
پہلے شق صدر کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ میثاق اولین کو برائی کی کوئی قوت چھیڑ ہی نہ سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ واضح طور پر ہمیشہ اسی میثاق پر قائم رہے۔ اور دوسرے شق صدر کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے قلب مبارک میں حکمت و ایمان میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ آپ اپنے عظیم ترین سفر اور اس کے مشاہدات کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ حدیث حقیقت ایمان میں زیادتی کے بارے میں نص صریح ہے۔ آپ ﷺ کا قلب مطہر پہلے ہی ایمان سے معمور تھا۔ اس مرحلے میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ان دونوں حدیثوں سے، کہنے والے کی اس بات کی مکمل تردید ہو جاتی ہے کہ إيماني إيماني الأنبیاء ”میرا ایمان انبیاء کے ایمان کی طرح ہے۔ ان فقروں کے حامی متکلمین نے ان فقروں کی تائید کے لیے جو کچھ کہا ہے اس حدیث کو سامنے رکھیں تو ان میں سے کسی بات میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔
البتہ محد ثین کی بھر پورمہم کے نتیجے میں، بعض اہل علم نے ان باتوں کی از سر نو تعمیر اور وضاحت کرنے کی کوششیں کیں۔ شیخ ملاعلی قاری نے امام ابوحنیفہ کے بعد ان کے ایسے شارحین کے وضاحتی بیان جمع کر کے کامیابی سے حضرت الامام کے اقوال کی ایسی تعبیر کر دی ہے جو کتاب وسنت پرمبنی ائمہ محدثین اور جمہور امت کے نقطہ نظر کے قریب تر ہے۔
ایمان کے حوالے سے امام مسلم نے احادیث کی جمع وترتیب کے ذریعے سے جوحقائق واضح کیے، یہ ان کا ایک اجمالی جائزہ ہے، اس جائزے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کے سامنے ایمان کے بنیادی حقائق کا ایک مختصر نقشہ موجود رہے اور امام مسلم نے اپنے حسن ترتیب سے جو نکات واضح کرنے کی کوشش کی ان کے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓسےروایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں (آپ سے) عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیاہم قیامت کے دن اپنےرب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (ہاں) فرمایا: ’’ کیا دو پہر کے وقت صاف مطلع میں، جب ابر نہ ہوں، سورج کو دیکھتے ہوئے تمہیں کوئی زحمت ہوتی ہے؟ اور کیا پورے چاند کی رات کو جب مطلع صاف ہو اور ابر نہ ہوں تو چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کےرسول نہیں! فرمایا: ’’قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنے میں اس سے زیادہ دقت نہ ہوگی، جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا: ہر امت اس کے پیچھے چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتی تھی۔ کوئی آدمی ایسا نہ بچے گا جو اللہ کے سوا بتوں اور پتھروں کو پوجتا تھا مگر وہ آ گ میں جا گرے گا حتی کہ جب ان کے سوا جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، وہ نیک ہوں یا بد، اور اہل کتاب کے بقیہ (بعد کے دور) لوگوں کےسوا کوئی نہ بچے گا، تو یہود کو بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے، تو کہا جائے گا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ بیٹا، تو (اب) کیا چاہتے ہو؟ کہیں گے: پروردگار! ہمیں پیاس لگی ہے ہمیں پانی پلا۔ تو ان کو اشارہ کیا جائے گا کہ تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر ا نہیں اکٹھا کر کے آگ کی طرف ہانک دیا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ رہا ہو گا، اوروہ سب (ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے۔ پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے کہاجائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے مسیح کو پوجتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ کوئی بیٹا، پھر ان سے کہا جائے گا! (اب) تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم پیاسے ہیں، ہمارے پروردگار! ہمیں پانی پلا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کواشارہ کیا جائے گا، تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انہیں اکٹھا کر کے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی (اور) اس کا ایک حصہ (شدت اشتعال سے) دوسرے کو توڑ رہا ہو گا، وہ ( ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے، حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالیٰ (ہی) کی عبادت کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، (تو) سب جہانوں کا رب سبحان و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر (یا مختلف) صورت میں آئے گا (اور) فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر امت اس کے پیچھے جا رہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی۔ وہ (سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر) التجا کریں گے: اےہمارے رب! ہم دنیا میں سب لوگوں سے، جتنی شدید بھی ہمیں ان کی ضرورت تھی الگ ہو گئے، ہم نے ان کاساتھ نہ دیا۔ وہ کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ ان میں بعض لوگ بدلنے کے قریب ہو ں گے، تو وہ فرمائے گا: کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی (طے) ہے، جس سے تم اس کو پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے: ہاں! تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا، اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کےلیے یا دکھاوے کےلیے سجدہ کرتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک ہی مہرہ بنادے گا، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا۔ پھر وہ (سجدے سے) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں آ چکا ہو گا جس میں انہوں نے اس کو (سب سے) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ تووہ کہیں گے: (ہاں) تو ہی ہمارا رب ہے۔ پھر جہنم پر پل دیا جائے گا اور سفارش کا دروازہ کھل جائے گا، اور (سب رسول) کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جسر (پل) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’بہت پھسلنی، ڈگمگا دینے والی جگہ ہے، اس میں اچک لینےوالے آنکڑے اور کئی کئی نوکوں والے کنڈے ہیں، اور اس میں کانٹے دار پودے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے۔ تو مومن آنکھ کی جھپک کی طرح اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے، کوئی صحیح سالم نجات پانے والا ہو گا اور کوئی زخمی ہو کر چھوڑ دیا جانے والا، اور کچھ جہنم کی آگ میں تہ بہ تہ لگا دیے جانے والے، یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے، تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے (کے معاملے) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے، جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا، ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کےدل میں دینار بھر خیر (ایمان) پاؤ اس کو نکال لاؤ، تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم نے دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ، تو وہ (پھرسے) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔‘‘ (ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہوسکتا ہے ۔)
ابو سعید خدری ؓکہا کرتے تھے: اگر تم اس حدیث میں میری تصدیق نہیں کرتے، تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اس کو بڑھاتا ہے او راپنی طرف سے اجر عظیم دیتا ہے۔‘‘ ’’پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا، تو وہ آ گ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا، اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر (بہنے والی) ایک نہر میں ڈال دے گا، جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے، وہ اس طرح (اُگ کر) نکل آئیں گے جس طرح (گھاس کا) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے، کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو کہ کبھی وہ پتھر کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور کبھی درخت کے ساتھ، جوسورج کے رخ پر ہوتا ہے، وہ زرد اور سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے، وہ سفید ہوتا ہے ؟‘‘ صحابہؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا لگتا ہے کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تووہ لوگ (نہرسے) موتیوں کے مانند نکلیں گے، ان کی گردنوں میں مہریں ہو ں گی، اہل جنت (بعد ازاں) ان کو ( اس طرح) پہچانیں گے، کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بغیر کسی نیکی کے جو انہوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر وہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ! اور جو تمہیں نظر آئے وہ تمہارا ہے ، اس پر وہ کہیں گے : اےہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سےکسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمہارے میرے پاس اس سے بڑھ کر کون سی چیز ( ہوسکتی ) ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میری رضا کہ اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے دور میں آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ہاں‘‘ فرمایا: ’’کیا دوپہر کے وقت جب مطلع صاف ہو، ابر آلود نہ ہو، تمھیں سورج کے دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ کیا چودہویں رات جب آسمان صاف ہو بادل نہ ہوں، تمھیں چاند دیکھنے میں کوئی اذیت پہنچتی ہے؟‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! فرمایا: ’’قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کے دیکھنے میں اتنی ہی کلفت ہو گی، جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا منادی کرے گا: ہر امت اپنے معبود کے ساتھ ہو جائے۔ جس قدر لوگ اللہ کے سوا بتوں، آستانوں کو پوجتے تھے، سب آگ میں جا گریں گے، اور صرف وہ لوگ بچ جائیں گے جو اللہ کی بندگی کرتے تھے۔ نیک ہوں یا بد۔ اور کچھ اہلِ کتاب کے بقایا لوگ (جو اپنے اصل دین پر قائم رہے) پھر یہود کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: تم کس چیز کی عبادت کرتے تھے؟ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی بندگی کرتے تھے، تو ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی بیٹا ہے، تم کیا چاہتے ہو؟ کہیں گے:ہمیں پیاس لگی ہے، اے ہمارے رب ہمیں پانی پلا! تو ان کو اشارہ کیا جائے گا،تم پانی پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انھیں جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا۔ وہ انھیں سراب کی طرح دکھائی دے گی، اور اس کا بعض حصہ دوسرے حصے کو تباہ کر رہا ہوگا، تو وہ سب جہنم میں گر جائیں گے۔ پھر نصاریٰ کو بلا کر پوچھا جائے گا: تم کس چیز کی بندگی کرتے تھے؟ وہ کہیں گے ہم اللہ کے بیٹے مسیح کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ کی کوئی بیوی ہے نہ کوئی اولاد۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا: اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو پیاس لگی ہے، ہمیں پانی پلا!‘‘ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ان کو اشارہ کیا جائے گا، تم پانی کی طرف کیوں نہیں جاتے؟ پھر انھیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، گویا کہ وہ سراب ہے۔ بعض بعض کو کھا رہا ہوگا (شدتِ اشتعال سے ایک دوسرے کو توڑ رہا ہوگا)، تو وہ سب آگ میں گر جائیں گے، یہاں تک کہ صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو اللہ کی بندگی کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، ان کے پاس کائنات کا مالک اس سے قریب تر شکل میں آئے گا جس کو وہ جانتے ہوں گے۔ فرمائے گا : تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر گروہ اس کے ساتھ چلا گیا ہے، جس کی وہ عبادت کرتا تھا۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دنیا میں لوگوں سے اس وقت جدائی اختیار کی، جب کہ ہم ان کے بہت محتاج تھے، اورا ن کے ساتھ نہ رہے، تو وہ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ بعض لوگ ان میں سے (راہِ ثواب سے)پھرنے کے قریب ہوں گے (کیونکہ امتحان کی شدت کی وجہ سے دل میں شبہ پیدا ہونے لگےگا)، پھر فرمائے گا: کیا تمھارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی ہے؟ جس سےتم اس کو پہچان سکو؟ تو وہ جواب دیں گے: ہاں! تو پنڈلی ظاہر کردی جائے گی، تو ہر وہ انسان جو اپنی مرضی سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا اس کو اللہ سجدہ کی اجازت (توفیق) دے گا۔ اور ہر وہ شخص جو (مسلمانوں سے) بچنے کے لیے اور لوگوں کے دکھلاوے کے لیےسجدہ کرتا تھا، اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک تختہ کی طرف بنا دے گا۔جب وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر جائے گا۔ پھر وہ لوگ سجدے سے سر اٹھائیں گے، اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں ہو چکا ہو گا جس صورت میں انھوں نے پہلی مرتبہ دیکھاہو گا، اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ تو وہ کہیں گے: تو ہی ہمارا رب ہے، پھر جہنم پر پل بچھا دیا جائے گا اور سفارش شروع ہو جائے گی۔ اس وقت (رسول) کہیں گے اے اللہ بچا! بچا!‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! جسر (پل) کیسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’بہت پھسلنے کی جگہ ہوگی۔ اس پراچکنے والے آنکس ہوں گے، اور لوہے کی گوشت بھوننے والی مڑی ہوئی سلاخیں ہوں گی، اور اس میں گھوکرو جو نجد میں ہوتے ہیں، اس میں کانٹے ہوں گے جن کو سعدان کہتے ہیں، تو مومن اس سے پار ہوں گے پلک جھپکنے کی طرح ، کوئی بجلی کی طرح ، کوئی ہوا کی طرح، کوئی پرندوں کی طرح اور بعض تیز رفتار گھوڑوں کی طرح، بعض اونٹوں کی طرح، کچھ سالم پار ہو جائیں گے اور بعض زخمی ہو کر چھٹکارا پائیں گے، اور کچھ دھکا دے کر جہنم کی آگ میں گرا دیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پا لیں گے، تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اپنا حق پورا پورا وصول کرنے میں اس قدر جھگڑا نہیں کرتا، جس قدر مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں قیامت کے دن جھگڑا کریں گے، جو آگ میں چلے گئے ہوں گے۔ مومن کہیں گے: اے اللہ! اے ہمارے رب! یہ لوگ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: جن کو تم پہچانتے ہو ان کو نکال لو۔ ان کی شکلیں (صورتیں) آگ پر حرام کر دی جائیں گی۔ تو وہ بہت سے ان لوگوں کو نکال کر لائیں گے جن کے آگ آدھی پنڈلیوں تک پہنچ چکی ہو گی۔ پھر مومن کہیں گے: اے ہمارے رب! جن کے نکالنے کے لیے تو نے فرمایا تھا، ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو اللہ عز وجل فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں دینار بھر خیر (نیکی) پاؤ اس کو نکال لاؤ۔ تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔ پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم نے کسی ایسے فرد کواس میں نہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا۔ پھر وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔ پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی ایسے آدمی کو نہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا۔ پھر وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں ذرہ برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے، پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم نےاس میں کسی صاحبِ خیر کو نہیں چھوڑا۔‘‘
اور ابو سعید خدریؓ فرمایا کرتے تھے: اگرتم میری اس حدیث کی تصدیق نہیں کرتے، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو ’’بے شک اللہ! ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرے گا اور نیکی ہوگی تو اس کو بڑھائے گا، اور اپنی طرف سے اجرِ عظیم دے گا۔‘‘(النساء: 40) ’’پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، انبیاءؑ نے سفارش کرلی اور مومن سفارش کر چکے اور ارحم الراحمین کے سوا کوئی نہیں رہا، تو وہ آگ سے ایک مٹھی بھرے گا، تو وہ ایسے لوگوں کو اس سے نکالے گا جنھوں کبھی نیکی نہیں کی ہوگی اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، تو وہ انھیں جنت کے دروازوں پر ایک نہر میں ڈال دے گا۔ جس کو زندگی کی نہر کہا جاتا ہے، تو وہ اس طرح پھلے پھولیں گے، جس طرح قدرتی بیج سیلاب کے خس وخاشاک میں نشوون پاتا ہے۔ کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو؟ کبھی وہ پتھر کے پاس ہوتا ہے، اور کبھی درخت کے پاس جو سورج کے رخ پر ہوتا ہے۔ وہ زرد اور سبز ہوتا ہے، اور جو سایہ میں ہوتا ہے، وہ سفید ہوتا ہے۔‘‘ تو صحابہ ؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ! گویا کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو وہ لوگ (نہر سے) موتی کی طرح نکلیں گے، ان کی گردنوں میں نشانی ہو گی۔ اہلِ جنت ان کو پہچانتے ہوں گے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انھوں نے کیا ہو، اور بغیر کسی خیر کے جو انھوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر اللہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ! اور تم نے جو کچھ دیکھا وہ تمھارا ہے۔ تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمھارے لیے میرے پاس اس سے بھی افضل (برتر)چیز ہے۔ تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! اس سے افضل چیز کون سی ہے؟ تو وہ فرمائے گا : میری خوشنودی و رضا اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'id al-Khudri reported: Some people during the lifetime of the Messenger of Allah (ﷺ) said: Messenger of Allah! (ﷺ) shall we see our Lord on the Day of Resurrection? The Messenger of Allah (ﷺ) said: Yes, and added: Do you feel any trouble in seeing the sun at noon with no cloud over it, and do you feel trouble in seeing the moon (open) in the full moonlit night with no cloud over it? They said: No, Messenger of Allah! (ﷺ) He (the Holy Prophet) said: You will not feel any trouble in seeing Allah on the Day of Resurrection any more than you do in seeing any one of them. When the Day of Resurrection comes a Mu'adhdhin (a proclaimer) would proclaim: Let every people follow what they used to worship. Then all who worshipped idols and stones besides Allah would fall into the Fire, till only the righteous and the vicious and some of the people of the Book who worshipped Allah are left. Then the Jews would be summoned, and it would be said to them: What did you worship? They will say: We worshipped 'Uzair, son of Allah. It would be said to them: You tell a lie; Allah had never had a spouse or a son. What do you want now? They would say: We feel thirsty, O our Lord! Quench our thirst. They would be directed (to a certain direction) and asked: Why don't you go there to drink water? Then they would be pushed towards the Fire (and they would find to their great dismay that) it was but a mirage (and the raging flames of fire) would be consuming one another, and they would fall into the Fire. Then the Christians would be summoned and it would be said to them: What did you worship? They would say: We worshipped Jesus, son of Allah. It would be said to them: You tell a lie; Allah did not take for Himself either a spouse or a son. Then it would be said to them: What do you want? They would say: Thirsty we are, O our Lord! Quench our thirst. They would be directed (to a certain direction) and asked: Why don't you go there to get water? But they would be pushed and gathered together towards the Hell, which was like a mirage to them, and the flames would consume one another. They would fall Into the Fire, till no one is left except he who worshipped Allah, be he pious or sinful. The Lord of the Universe, Glorified and Exalted, would come to them in a form recognisable to them and say; What are you looking for? Every people follow that which they worshipped. They would say: Our Lord, we kept ourselves separate from the people in the world, though we felt great need of them; we, however, did not associate ourselves with them. He would say: I am your Lord. They would say: We take refuge with Allah from thee and do not associate anything with Allah. They would repeat it twice or thrice, till some of them would be about to return. It would be said: Is there any sign between you and Him by which you will recognise Him? They would say: Yes. and the things would be laid bare. Those who used to prostrate themselves before God of their own accord would be permitted by God to prostrate themselves. But there would remain none who used to prostrate out of fear (of people) and ostentation but Allah would make his back as one piece, and whenever he would attempt to prostrate he would fall on his back. Then they would raise their heads and He would assume the Form in which they had seen Him the first time and would say: I am your Lord. They would say: Thou art our Lord. Then the bridge would be set up over the Hell and intercession would be allowed and they will say: O God, keep safe, keep safe. It was asked: Messenger of Allah, what is this bridge? He said: The void in which one Is likely to slip. There would be hooks, tongs, spits like the thorn that is found in Najd and is known as Sa'dan. The believers would then pass over within the twinkling of an eye, like lightning, like wind, like a bird, like the finest horses and camels. Some will escape and be safe, some will be lacerated and let go, and some will be pushed into the fire of Hell till the believers will find rescue from the Fire. By One in Whose hand is my life, there will be none among you more eager to claim a right than the believers on the Day of Resurrection for (saying their) brethren in the Fire who would say: O our Lord, they were fasting along with us, and praying and performing pilgrimage. It will be said to them: Take out those whom you recognise. Then their persons would be forbidden to the Fire; and they would take out a large number of people who had been overtaken by Fire up to the middle of the shank or up to the knees. They would then say: O our Lord I not one of those about whom Thou didst give us command remains in it. He will then say: Go back and bring out those in whose hearts you find good of the weight of a dinar Then they will take out a large number of people. Then they would say: O our Lord! we have not left anyone about whom You commanded us. He will then say: Go back and bring out those in whose hearts you find as much as half a dinar of good. Then they will take out a large number of people, and would say: O our Lord! not one of those about whom Thou commanded us we have left in it. Then He would say: Go back and in whose heart you find good to the weight of a particle bring him out. They would bring out a large number of people, and would then say: O our Lord, now we have not left anyone in it (Hell) having any good in him. Abu Sa'id Khudri said: If you don't testify me in this hadith, then recite if you like:" Surely Allah wrongs not the weight of an atom; and if it is a good deed. He multiplies it and gives from Himself a great reward" (al-Qur'an, iv. 40). Then Allah, Exalted and Great, would say: The angels have interceded, the apostles have interceded and the believers have interceded, and no one remains (to grant pardon) but the Most Merciful of the mercifuls. He will then take a handful from Fire and bring out from it people who never did any good and who had been turned into charcoal, and will cast them into a river called the river of life, on the outskirts of Paradise. They will come out as a seed comes cut from the silt carried by flood. You see it near the stone or near the tree. That which is exposed to the sun is yellowish or greenish and which is under the shade is white. They said: Messenger of Allah! (ﷺ) it seems as if you had been tending a flock in the jungle. He (the Holy Prophet) said: They will come forth like pearls with seals on their necks. The inhabitants of Paradise would recognise them (and say): Those are who have been set free by the Compassionate One. Who has admitted them into Paradise without any (good) deed that they did or any good that they sent in advance Then He would say: Enter the Paradise; whatever you see in it is yours. They would say: O Lord, Thou hast bestowed upon us (favours) which Thou didst not bestow upon anyone else in the world. He would say: There is with Me (a favour) for you better than this. They would say: O our Lord! which thing is better than this? He would say: It is My pleasure. I will never be angry with you after this