Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: Taking care to conceal one’s `awrah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
788.
اسحاق بن ابراہیم حنظلی اور محمد بن حاتم نے محمد بن بکر سے روایت کیا، دونوں نےکہا: ہمیں ابن جریج نےخبر دی، نیز اسحاق بن منصور اور محمد بن رافع نے (اور یہ الفاظ ان دونوں کے ہیں) عبد الرزاق کے حوالے سے ابن جریج سے حدیث بیان کی، انہوں (ابن جریج) نے کہا: مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور نبی ﷺ پتھر ڈھونے لگے، حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے کہا: پتھروں سے حفاظت کے لیے اپنا تہبند اٹھا کر کندھے پر رکھ لیجیے۔ آپﷺ نے ایسا کیا تو آپﷺ زمین پر گر گئے اور آنکھیں ( اوپر ہو کر) آسمان پر ٹک گئیں، پھر آپﷺ اٹھے اور کہا: ’’میرا تہبند، میرا تہبند۔‘‘ تو آپﷺ کا تہبند آپﷺ کو کس کر باندھ دیا گیا۔ ابن رافع کی روایت میں عَلٰى رَقَبَتِكَ (اپنی گردن پر ) کے الفاظ ہیں ، انہوں عَلٰی عَاتِقِكَ (اپنے کندھے پر) نہیں کہا۔
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
اسحاق بن ابراہیم حنظلی اور محمد بن حاتم نے محمد بن بکر سے روایت کیا، دونوں نےکہا: ہمیں ابن جریج نےخبر دی، نیز اسحاق بن منصور اور محمد بن رافع نے (اور یہ الفاظ ان دونوں کے ہیں) عبد الرزاق کے حوالے سے ابن جریج سے حدیث بیان کی، انہوں (ابن جریج) نے کہا: مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور نبی ﷺ پتھر ڈھونے لگے، حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے کہا: پتھروں سے حفاظت کے لیے اپنا تہبند اٹھا کر کندھے پر رکھ لیجیے۔ آپﷺ نے ایسا کیا تو آپﷺ زمین پر گر گئے اور آنکھیں ( اوپر ہو کر) آسمان پر ٹک گئیں، پھر آپﷺ اٹھے اور کہا: ’’میرا تہبند، میرا تہبند۔‘‘ تو آپﷺ کا تہبند آپﷺ کو کس کر باندھ دیا گیا۔ ابن رافع کی روایت میں عَلٰى رَقَبَتِكَ (اپنی گردن پر ) کے الفاظ ہیں ، انہوں عَلٰی عَاتِقِكَ (اپنے کندھے پر) نہیں کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور رسول اللہ ﷺ پتھر لانے لگے تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا، پتھروں کی حفاظت کے لیے اپنا تہبند اٹھا کر کندھے پر رکھ لیجیئے تو آپﷺ نے ایسا کر لیا، اس پر آپﷺ زمین پر گر گئے اور آپﷺ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں، پھر آپﷺ اٹھے اور کہا میرا تہبند، میرا تہبند تو آپﷺ کا تہبند باندھ دیا گیا یا آپﷺ نے اپنا تہبند باندھ لیا، ابن رافع کی روایت میں عَلٰی عَاتِقِكَ (اپنے کندھے پر) کے بجائے عَلٰی رَقَبَتِكَ (اپنی گردن پر) کے الفاظ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
انسان کو دوسروں کے سامنے اپنا ستر نہیں کھولنا چاہیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ہی اپنی طبعی شرم وحیا کی بنا پر چچا کے حکم سے اپنا تہبند کھول تو لیا۔ لیکن فوراً بے ہوش ہو کر گر پڑے، اور آپ کو اس کام سے روک دیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو نبوت سے پہلے ہی غلط کاموں سے محفوظ فرماتا ہے اس وقت آپﷺ بقول زہری بلوغت کو نہیں پہنچے تھے بقول بعض اس وقت آپﷺ کی عمر پندرہ سال، بقول بعض پچیس اور بقول ابن اسحاق پینتیس سال تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah reported: When the Ka’bah was constructed the Apostle of Allah (ﷺ) and Abbas went and lifted stones. Abbas said to the Messenger of Allah (ﷺ) : Place your lower garment on your shoulder (so that you may protect yourself from the roughness and hardness of stones). He (the Holy Prophet) did this, but fell down upon the ground in a state of unconciousness and his eyes were turned towards the sky. He then stood up and said: My lower garment, my lower garment; and this wrapper was tied around him. In the hadith transmitted by Ibn Rafi', there is the word: "On his neck" and he did not say: "Upon his shoulder."