باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2783.
عکرمہ بن عمار نے کہا: ہمیں یحییٰ نے حدیث سنائی کہا: میں اور عبداللہ بن یزید حضرت ابو سلمہ کے پاس حاضری کے لیے (اپنے گھروں سے) روانہ ہوئے۔ ہم نے ایک پیغام لے جانے والا آدمی ان کے پاس بھیجا تو وہ بھی ہمارے لئے باہر نکل آئے۔ وہاں ان کے گھر کے دروازے کے پاس ایک مسجد تھی، کہا: ہم مسجد میں رہے یہاں تک کہ وہ بھی ہمارے پاس آ گئے۔انھوں نے کہا: اگر تم چاہو تو (گھر میں) داخل ہو جاؤ۔ اور اگر چاہو تو یہیں (مسجد میں) بیٹھ جاؤ۔ کہا: ہم نے کہا: نہیں، ہم یہیں بیٹھیں گے، آپ ہمیں احادیث سنائیں۔ انھوں نے کہا: مجھے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: میں مسلسل روزے رکھتا تھا اور ہر رات (قیام میں پورے) قرآن کی قراءت کرتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے سامنے میرا ذکر کیا گیا (اور آپ ﷺ تشریف لائے) یا آپ ﷺ نے مجھے پیغام بھیجا اور میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا مجھے نہیں بتایا گیا کہ تم ہمیشہ (ہرروز) روزہ رکھتے ہو اور ہر رات (پورا) قرآن پڑھتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی کریم ﷺ! کیوں نہیں (یہ بات درست ہے) اور ایسا کرنے میں میرے پیش نظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو۔‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کا حق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کا حق ہے۔‘‘ (آخر میں) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزوں کی طرح روزے رکھو وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! داود عایہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔‘‘ فرمایا: ’’قرآن کی قراءت ایک ماہ میں (مکمل کیا) کرو۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ فرمایا: اسے ہر بیس دن میں پڑھ لیا کرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ فرمایا: اسے ہر دس دن میں پڑھ لیا کرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ ﷺ فرمایا: اسے ہر سات دن میں پڑھ لیاکرو۔ اس سے زیادہ نہ کرو تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کا حق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کا حق ہے۔‘‘ کہا: میں نے (اپنے اوپر) سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی۔ اور نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے شاید تمھاری عمر طویل ہو۔‘‘ کہا: میں اسی کی طرف آ گیا جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا، جب میں بوڑھا ہو گیا تو میں نے پسند کیا (اور تمنا کی) کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی رخصت قبول کر لی ہوتی۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
عکرمہ بن عمار نے کہا: ہمیں یحییٰ نے حدیث سنائی کہا: میں اور عبداللہ بن یزید حضرت ابو سلمہ کے پاس حاضری کے لیے (اپنے گھروں سے) روانہ ہوئے۔ ہم نے ایک پیغام لے جانے والا آدمی ان کے پاس بھیجا تو وہ بھی ہمارے لئے باہر نکل آئے۔ وہاں ان کے گھر کے دروازے کے پاس ایک مسجد تھی، کہا: ہم مسجد میں رہے یہاں تک کہ وہ بھی ہمارے پاس آ گئے۔انھوں نے کہا: اگر تم چاہو تو (گھر میں) داخل ہو جاؤ۔ اور اگر چاہو تو یہیں (مسجد میں) بیٹھ جاؤ۔ کہا: ہم نے کہا: نہیں، ہم یہیں بیٹھیں گے، آپ ہمیں احادیث سنائیں۔ انھوں نے کہا: مجھے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: میں مسلسل روزے رکھتا تھا اور ہر رات (قیام میں پورے) قرآن کی قراءت کرتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے سامنے میرا ذکر کیا گیا (اور آپ ﷺ تشریف لائے) یا آپ ﷺ نے مجھے پیغام بھیجا اور میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا مجھے نہیں بتایا گیا کہ تم ہمیشہ (ہرروز) روزہ رکھتے ہو اور ہر رات (پورا) قرآن پڑھتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی کریم ﷺ! کیوں نہیں (یہ بات درست ہے) اور ایسا کرنے میں میرے پیش نظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو۔‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کا حق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کا حق ہے۔‘‘ (آخر میں) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزوں کی طرح روزے رکھو وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! داود عایہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔‘‘ فرمایا: ’’قرآن کی قراءت ایک ماہ میں (مکمل کیا) کرو۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ فرمایا: اسے ہر بیس دن میں پڑھ لیا کرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ فرمایا: اسے ہر دس دن میں پڑھ لیا کرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ ﷺ فرمایا: اسے ہر سات دن میں پڑھ لیاکرو۔ اس سے زیادہ نہ کرو تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کا حق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کا حق ہے۔‘‘ کہا: میں نے (اپنے اوپر) سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی۔ اور نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے شاید تمھاری عمر طویل ہو۔‘‘ کہا: میں اسی کی طرف آ گیا جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا، جب میں بوڑھا ہو گیا تو میں نے پسند کیا (اور تمنا کی) کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی رخصت قبول کر لی ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں اور عبداللہ بن یزید دونوں ابوسلمہ کے پاس گئے اور ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور وہ گھر سے نکلے اور ان کے دروازہ پر ایک مسجد تھی کہ جب وہ نکلے تو ہم سب مسجد میں تھے اور انہوں نے کہا: چاہو گھر چلو، چاہو یہاں بیٹھو، ہم نے کہا: یہیں بیٹھیں گے اور آپ ہم سے حدیثیں بیان فرمائیے، انہوں نے کہا: روایت کی مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اور ہر شب قرآن پڑھتا تھا (یعنی ساری رات) اور کہا: یا تو میرا ذکر آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلا بھیجا غرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کو کیا خبر نہیں لگی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات قرآن پڑھتے ہو۔“ میں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! اور میں اسے بھلائی چاہتا ہوں (یعنی ریا و سمعہ مقصود نہیں) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو اتنا کافی ہے کہ ہر ماہ میں تین دن روزے رکھ لیا کرو۔“ میں نے عرض کیا: اے نبی اللہ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری بی بی کا حق ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے تم پر تو اس لیے تم داؤد علیہ السلام کا روزہ اختیار کرو جو نبی تھے اللہ تعالیٰ کے اور سب لوگوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔“ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن ہر ماہ میں ایک بار ختم کیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیس روز میں ختم کیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس روز میں ختم کرو۔“ میں نے عرض کی: اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات روز میں ختم کیا کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو (اس لیے کہ اس سے کم میں تدبر اور تفکر قرآن ممکن نہیں) اس لیے کہ تمہاری بی بی کا حق بھی ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے بدن کا حق ہے تم پر۔“ کہا: پس میں نے تشدد کیا سو میرے اوپر تشدد ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم نہیں جانتے شاہد تمہار ی عمر دراز ہو۔“ (تو اتنا بار تم پر گراں ہو گا اور امور دین میں خلل آئے گا سبحان اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور انجام بینی تھی اور آخر وہی ہوا) کہا عبداللہ نے پھر میں اسی حال کو پہنچا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے ذکر کیا تھا اور جب میں بوڑھا ہوا تو آرزو کی میں نے کہ کاش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Yahya reported: I and 'Abdullah bin Yazid set out till we came to Abu Salama. We sent a messenger to him (in his house in order to inform him about our arrival) and he came to us. There was a mosque near the door of his house, and we were in that mosque, till he came out to us. He said: If you like you may enter (the house) and, if you like, you may sit here (in the mosque). We said: We would rather sit here and (you) relate to us. He (Yahya) then narrated that 'Abdullah b Amr bin al-'As (RA) told him: I used to observe fast uninterruptedly and recited the (whole of the) Qur'an every night. It (the uninterrupted fasting and recital of the Qur'an every night) was mentioned to the Apostle of Allah (ﷺ) so he sent for me, and I went to him and he said to me: I have been informed that you fast continuously and recite (the whole of the Qur'an) every night. I said: Apostle of Allah (ﷺ) , it is right, but I covet thereby nothing but good, whereupon he said: It suffices for you that you should observe fast for three days during every month. I said: Apostle of Allah (ﷺ) , I am capable of doing more than this. He said: Your wife has a right upon you, your visitor has a right upon you, your body has a right upon you; so observe the fast of David, the Apostle of Allah (ﷺ) (peace be upon him), for he was the best worshipper of Allah. I said: Apostle of Allah (ﷺ) , what is the fast of David? He said: He used to fast one day and did not fast the other day. He (also) said: Recite the Qur'an during every month. I said: Apostle of Allah (ﷺ) , I am capable of doing more than this, whereupon he said: Recite it in twenty days; recite it in ten days. I said: I am capable of doing more than this, whereupon he said: Recite it every week, and do not exceed beyond this, for your wife has a right upon you, your visitor has a right upon you, your body has a right upon you. He ('Amr bin 'As) said: I was hard to myself and thus I was put to hardship. The Apostle of Allah (ﷺ) had told me: 'You do not know you may live long (thus and bear the hardships for a long time), and I accepted that which the Apostle of Allah (ﷺ) had told me. When I grew old I wished I had availed myself of the concession (granted by) the Apostle of Allah (ﷺ) .