باب: لیلۃ القدر کی فضیلت ‘اس کو تلاش کرنے کی ترغیب ‘اس کی وضاحت کہ وہ کب ہے ؟اور کن اوقات میں ڈھونڈنے سے اس کےمل جانے کی زیادہ امید ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The virtue of Lailat Al-Qadr and the Exhortation to seek it; When it is and the most likely times to seek it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1167.
ہمیں بکر نے ابن ہاد سے حدیث سنائی، انھوں نے محمد بن ابرا ہیم سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمان سے انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: رسول اللہ ﷺ ان دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے جو مہینے کے درمیان میں ہوتے ہیں جب وہ وقت آتا کہ بیس راتیں گزر جاتیں اور اکیسویں رات کی آمد ہوتی تو اپنے گھر لو ٹ جاتے اور وہ شخص بھی لوٹ جاتا جو آپﷺ کے ساتھ اعتکاف کرتا تھا۔ پھر آپﷺ ایک مہینے، جس میں آپﷺ نے اعتکاف کیا تھا اس رات ٹھہرے رہے جس میں آپ (گھر) لوٹ جایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا، جو اللہ تعالیٰ نے چاہا اس کا حکم دیا۔ پھر فرمایا: ’’میں ان (درمیانے) دس دنوں کا اعتکاف کرتا تھا۔ پھر مجھ پر منکشف ہوا کہ میں اس آخری عشرے کا اعتکاف کروں۔ تو جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے اعتکاف کی جگہ ہی میں رات بسر کرے اور بلاشبہ میں نے یہ رات خواب میں دیکھی ہے اس کے بعد وہ مجھے بھلا دی گئی۔ لہٰذا تم اسے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو۔ میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اکیسویں رات ہم پر بارش ہو ئی تو رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ میں مسجد (کی چھت ٹپک پڑی میں نے جب آپﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہو چکے تھے۔ آپﷺ کو دیکھا تو آپﷺ کے چہرہ مبارک مٹی اور پانی سے بھیگا ہوا تھا ۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ہمیں بکر نے ابن ہاد سے حدیث سنائی، انھوں نے محمد بن ابرا ہیم سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمان سے انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: رسول اللہ ﷺ ان دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے جو مہینے کے درمیان میں ہوتے ہیں جب وہ وقت آتا کہ بیس راتیں گزر جاتیں اور اکیسویں رات کی آمد ہوتی تو اپنے گھر لو ٹ جاتے اور وہ شخص بھی لوٹ جاتا جو آپﷺ کے ساتھ اعتکاف کرتا تھا۔ پھر آپﷺ ایک مہینے، جس میں آپﷺ نے اعتکاف کیا تھا اس رات ٹھہرے رہے جس میں آپ (گھر) لوٹ جایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا، جو اللہ تعالیٰ نے چاہا اس کا حکم دیا۔ پھر فرمایا: ’’میں ان (درمیانے) دس دنوں کا اعتکاف کرتا تھا۔ پھر مجھ پر منکشف ہوا کہ میں اس آخری عشرے کا اعتکاف کروں۔ تو جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے اعتکاف کی جگہ ہی میں رات بسر کرے اور بلاشبہ میں نے یہ رات خواب میں دیکھی ہے اس کے بعد وہ مجھے بھلا دی گئی۔ لہٰذا تم اسے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو۔ میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اکیسویں رات ہم پر بارش ہو ئی تو رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ میں مسجد (کی چھت ٹپک پڑی میں نے جب آپﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہو چکے تھے۔ آپﷺ کو دیکھا تو آپﷺ کے چہرہ مبارک مٹی اور پانی سے بھیگا ہوا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہینہ کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے تھے تو جب بیس راتیں گزر جاتی اور اکیسویں شب کی آمد ہوتی تو اپنے گھر لوٹ جاتے اور جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپﷺ کے ساتھ معتکف ہوتے وہ بھی گھروں کو لوٹ جاتے پھر ایک ماہ جس میں آپﷺ نے اعتکاف کیا تھا اس رات ٹھہر گئے جس میں آپﷺ واپس لوٹ جایا کرتے تھے یعنی اکیسویں رات بھی ٹھہر گئے لوگوں کو خطاب فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو چاہا اس کا حکم دیا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’میں اس (درمیان)عشرہ کا اعتکاف کرتا تھا اب مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ میں اس آخری عشرہ کا اعتکاف کروں تو جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف بیٹھے ہیں وہ رات اپنے معتکف (جائے اعتکاف) میں بسر کریں کیونکہ مجھے یہ رات خواب میں دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی اس لیے اسے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا ہے کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اکیسویں رات ہم پر بارش ہوئی اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلی (نماز گاہ میں پانی ٹپکا جب آپﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے آپﷺ کی طرف دیکھا اور آپﷺ کا چہرہ مٹی اور پانی سے تر ہو چکا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'id al-Khudri (RA) reported that Allah's Messenger (ﷺ) spent in devotion (in i'tikaf) the middle ten nights of the month of Ramadan, and when twenty nights were over and it was the twenty-first night, he went back to his residence and those who were along with him also returned (to their respective residences). He spent one month in devotion. Then he addressed the people on the night he came back (to his residence) and commanded them as Allah desired (him to command) and then said: I used to devote myself (observe i'tikaf) during these ten (nights). Then I started devoting myself in the last ten (nights). And he who desires to observe i'tikaf along with me should spend the night) at his place of i'tikaf. And I saw this night (Lailat-ul-Qadr) but I forgot it (the exact night); so seek it in the last ten nights on odd numbers. I saw (the glimpses of that dream) that I was prostrating in water and mud. Abu Sa'id al-Khudri said: It rained on the twenty-first night and the water dripped (from the roof) of the mosque at the place where the Messenger of Allah (ﷺ) observed prayer. I looked at him and as he completed the dawn prayer, (I found) his face was wet with mud and water.