باب: لیلۃ القدر کی فضیلت ‘اس کو تلاش کرنے کی ترغیب ‘اس کی وضاحت کہ وہ کب ہے ؟اور کن اوقات میں ڈھونڈنے سے اس کےمل جانے کی زیادہ امید ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The virtue of Lailat Al-Qadr and the Exhortation to seek it; When it is and the most likely times to seek it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1168.
بسر بن سعید نے حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے شب قدر دکھا ئی گئی پھر مجھے بھلا دی گئی۔ اس کی صبح میں اپنے آپﷺ کو دیکھتا ہوں کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ کہا: تیئسویں رات ہم پر بارش ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی پھر آپﷺ نے (رخ) پھیرا تو آپﷺ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے نشانات تھے، کہا: اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے (لیلۃالقدر) تیئیسویں ہے۔
تشریح:
فوائد ومسائل
یہ حدیث پیشانی مبارک پر پانی اور مٹی لگ جانے کی علامت کی تائید کرتی ہے۔ البتہ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی تاریخ کے تعین میں حضرت ابو سعید سے اختلاف کیا ہے۔ یہ حدیث آخری سات راتوں والی حدیث سے مطابقت رکھتی ہے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
بسر بن سعید نے حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے شب قدر دکھا ئی گئی پھر مجھے بھلا دی گئی۔ اس کی صبح میں اپنے آپﷺ کو دیکھتا ہوں کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ کہا: تیئسویں رات ہم پر بارش ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی پھر آپﷺ نے (رخ) پھیرا تو آپﷺ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے نشانات تھے، کہا: اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے (لیلۃالقدر) تیئیسویں ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ حدیث پیشانی مبارک پر پانی اور مٹی لگ جانے کی علامت کی تائید کرتی ہے۔ البتہ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی تاریخ کے تعین میں حضرت ابو سعید سے اختلاف کیا ہے۔ یہ حدیث آخری سات راتوں والی حدیث سے مطابقت رکھتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے شب قدر دکھائی گئی پھر بھلا دی گئی اور میں نے اس کی صبح اپنے آپ کو پانی اور مٹی میں سجدے کرتے دیکھا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تیئسویں کی رات ہم پر بارش برسی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو پانی اور مٹی کا نشان آپﷺ کی پیشانی اور ناک پر موجود تھا عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ شب قدر تیئسویں ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی اور مٹی والی علامت اکیسویں رات کی بیان کی ہے اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تئیسویں رات کی، معلوم ہوتا ہے اس نشانی کا ظہور مختلف اوقات میں مختلف طاق راتوں میں ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Unais reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: I was shown Lailat-ul-Qadr; then I was made to forget it, and saw that I was prostrating in water and clay in the morning of that (night). He (the narrator) said: There was a downpour on the twenty-third night and the Messenger of Allah (ﷺ) led us in prayer, and as he went back, there was a trace of water and clay on his forehead and on his nose. He (the narrator) said: 'Abdullah bin Unais used to say that it was the twenty-third (night).