باب: رمضان کے آخری دس دنوں میں خوب محنت (سے عبادت )کرنا
)
Muslim:
The Book of I'tikaf
(Chapter: Striving harder in worship during the last ten days of Ramadan)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1174.
مسروق نے حضرت عائشہ سے روایت کی کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں: کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ ﷺ رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے اور کمر، ہمت باندھ لیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہر طرف سے بے تعلق ہو کر مسجد میں کوشہ نشینی ایک قدیم عبادت ہے ‘اسے عکوف یا اعتکاف کہتے ہیں جب اللہ کا پہلا گھر بنا تو عبادت کے دوسرے طریقوں کے علاوہ یہ اعتکاف کا بھی مرکز تھا اعتکاف،رمضان اور غیر رمضان میں کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں ضرور اعتکاف کرتے تھے اعتکاف کرنے والا بیسویں روزے کے دن غروب آفتاب سے قبل مسجد میں داخل ہوگا اور رمضان کے آخری دن کے غروب سے اس کا اعتکاف ختم ہو جائے گا اعتکاف کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکرو فکر کے لیے تنہائی اختیار کر نا ہے لہذا دورانِ اعتکاف فضول مصروفیتوں،دنیوی کاموں اور لا یعنی گفتگو سے احتراز ضروری ہے اعتکاف مسجد ہی میں کیا جا سکتا ہے عورت بھی اعتکاف کر سکتی ہے۔اس کے لیے اپنے خاوند یا ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ ایسی جامع مسجد ضروری ہے جہاں پردہ ،امن و تحفظ اور ضروریات کے لیے آسانی میسر ہو۔مستحاضہ عورت بھی اعتکاف کر سکتی ہے، البتہ اگر عورت کو دورانِ اعتکاف ایام شروع ہو جائیں تو وہ اپنا اعتکاف ختم کر دے گی۔ اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے ،جو شخص بوجوہ روزہ نہ رکھ سکتا ہو وہ بھی اعتکاف کی عبادت سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔دورانِ اعتکاف انسان کے گھر والوں کو اس سے ملنے اور حال دریافت کرنے کی اجازت ہے کسی ضرورت کے پیش نظر معتکف مسجد سے باہر بھی جا سکتا ہے :مثلاً قضائے حاجت کے لیے ،سحری افطاری یا ضروری علاج کے لیے بشرطیکہ ان کاشیاء کی ترسیل مسجد میں ممکن نہ ہو راستے میں آتے جاتے چلتے چلتے احباب کی خیر خیریت اور بیمارپرسی بھی کی جا سکتی ہے مندرجہ ذیل اشیاء سے اعتکاف ختم ہو جاتا ہے ۔
٭بغیر ضرورت کے مسجد سے باہر نکل جانا۔
٭ازدواجی تعلقات قائم کرنا۔
٭عورت کے ایام یا نفاس شروع ہو جانا۔
مسروق نے حضرت عائشہ سے روایت کی کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں: کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ ﷺ رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے اور کمر، ہمت باندھ لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، گھر والوں کو جگاتے اور خوب کوشش کرتے اور کمر ہمت کس لیتے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے، رات کااکثر حصہ جاگ کر گزارتے اور ان راتوں میں پہلے کی نسبت زیادہ وقت عبادت میں گزارتے اور ازواج مطہرات کو بھی شب بیداری کے لیے اٹھاتے، اس طرح عبادت کے لیے خوب اہتمام کرتے، (شَدَّ مِئزَرَهُ) کا لفظ عربی اسلوب اور محاورہ کے لحاظ سے دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 1۔ عورتوں سے الگ تھلک رہنا، جیسا کہ عربی کا ایک شاعر کہتا ہے۔ ’’قومٌ، إذا حاربُوا، شدّوا مآزرَهُم, دونَ النّساء، ولَوْ باتَتْ بأطْهارِ ‘‘ وہ ایسے جنگجو اوربہادر لوگ ہیں کہ لڑائی کے دنوں میں عورتوں سے تہبند باندھ لیتے ہیں یعنی الگ تھلگ رہتے ہیں اگرچہ وہ حیض ونفاس سے پاک ہوں۔ 2۔ عبادت کے لیے کمرہمت کس لینا اور عبادت کا خوب اہتمام کرنا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'Isha (Allah be pleased with her) reported that when the last ten nights began Allah's Messenger (ﷺ) kept awake at night (for prayer and devotion), wakened his family, and prepared himself to observe prayer (with more vigour).