باب: افضل ہے کہ (حج کے لیے جانے والا)احرام اس وقت باندھے جب سواری اسے لے کر کھڑی ہو جائے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو‘نہ کہ دو رکعت ادا کرنے کے فورا بعد
)
Muslim:
The Book of Pilgrimage
(Chapter: Clarifying that it is better to enter Ihram when a person's mount sets off with him, heading towards Makkah, not straight after the two rak'ah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1187.
سعید بن ابی سعید مقبری نے عبید بن جریج سے روایت کی کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا: اے ابو عبد الرحمٰن! میں نے آپ کو چار (ایسے) کام کرتے دیکھا ہے جو آپ کے کسی اور ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا۔ ابن عمر نے کہا: ابن جریج! وہ کو ن سے (چار کام) ہیں؟ ابن جریج نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (بیت اللہ کے) دو یمانی رکنوں (کونوں) کے سوا اور کسی رکن کو ہاتھ نہیں لگاتے، میں نے آپ کو دیکھا ہے سبتی (رنگے ہو ئے صاف چمڑے کے ) جوتے پہنتے ہیں ۔(نیز آپ کو دیکھا کہ زرد رنگ سے (کپڑوں کو) رنگتے ہیں اور آپ کو دیکھا ہے کہ جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں تو لو گ (ذوالحجہ کی) پہلی کا چاند دیکھتے ہی لبیک پکارنا شروع کر دیتے ہیں لیکن آپ آٹھویں کا دن آنے تک تلبیہ نہیں پکا رتے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا: جہا ں تک ارکان (بیت اللہ کے کونوں) کی بات ہے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو یمنی رکنوں کے سوا (کسی اور رکن کو ) ہاتھ لگا تے نہیں دیکھا۔ رہے سبتی جوتے تو بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے جو تے پہنے دیکھا کہ جن پر بال نہ ہوتے تھے آپ انھیں پہن کر وضو فرماتے (لہٰذا) مجھے پسند ہے کہ میں یہی (سبتی جوتے ) پہنوں۔ رہا زرد رنگ تو بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپﷺ یہ (رنگ) استعمال کرتے تھے۔ اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ میں بھی اس رنگ کو استعمال کروں ۔اور رہی بات تلبیہ (لبیک کہتے نہیں سنا جب تک آپ کی سواری آپﷺ کو لے کر کھڑی نہ ہو جا تی۔
سعید بن ابی سعید مقبری نے عبید بن جریج سے روایت کی کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا: اے ابو عبد الرحمٰن! میں نے آپ کو چار (ایسے) کام کرتے دیکھا ہے جو آپ کے کسی اور ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا۔ ابن عمر نے کہا: ابن جریج! وہ کو ن سے (چار کام) ہیں؟ ابن جریج نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (بیت اللہ کے) دو یمانی رکنوں (کونوں) کے سوا اور کسی رکن کو ہاتھ نہیں لگاتے، میں نے آپ کو دیکھا ہے سبتی (رنگے ہو ئے صاف چمڑے کے ) جوتے پہنتے ہیں ۔(نیز آپ کو دیکھا کہ زرد رنگ سے (کپڑوں کو) رنگتے ہیں اور آپ کو دیکھا ہے کہ جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں تو لو گ (ذوالحجہ کی) پہلی کا چاند دیکھتے ہی لبیک پکارنا شروع کر دیتے ہیں لیکن آپ آٹھویں کا دن آنے تک تلبیہ نہیں پکا رتے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا: جہا ں تک ارکان (بیت اللہ کے کونوں) کی بات ہے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو یمنی رکنوں کے سوا (کسی اور رکن کو ) ہاتھ لگا تے نہیں دیکھا۔ رہے سبتی جوتے تو بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے جو تے پہنے دیکھا کہ جن پر بال نہ ہوتے تھے آپ انھیں پہن کر وضو فرماتے (لہٰذا) مجھے پسند ہے کہ میں یہی (سبتی جوتے ) پہنوں۔ رہا زرد رنگ تو بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپﷺ یہ (رنگ) استعمال کرتے تھے۔ اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ میں بھی اس رنگ کو استعمال کروں ۔اور رہی بات تلبیہ (لبیک کہتے نہیں سنا جب تک آپ کی سواری آپﷺ کو لے کر کھڑی نہ ہو جا تی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبید بن جریح بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، اے ابو عبدالرحمٰن! میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے دیکھا ہے جو میں نے آپ کے ساتھیوں میں سے کسی اور کو کرتے نہیں دیکھا، انہوں نے پوچھا، اے ابن جریج! وہ کون سے کام ہیں؟ ابن جریج نے کہا، میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (بیت اللہ) کے (چار) ارکان میں سے صرف دو یمانی رکنوں کو مس کرتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے آپ سبتی جوتے پہنتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے، آپ زرد رنگ سے (بال) رنگتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں لوگ تو چاند دیکھ کر احرام باندھ لیتے ہیں اور آپ آٹھ ذوالحجہ تک احرام نہیں باندھتے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: رہا ارکان کا مسئلہ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمانی کونوں کے سوا (کونے) کو مس کرتے نہیں دیکھا، رہے سبتی جوتے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جوتے پہنتے دیکھا جو بالوں کے بغیر تھے اور ان میں وضو کرتے تھے، اس لیے میں ان کو پہننا پسند کرتا ہوں، رہا زرد رنگ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ استعمال کرتے دیکھا، اس لیے میں اس کے استعمال کو پسند کرتا ہوں اور رہا احرام کا مسئلہ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک احرام باندھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری آپﷺ کو لے کھڑی ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1)لايمانيين: بیت اللہ کےچار کونے ہیں، وہ رکن (کونہ) جس میں حجراسود ہے اور اس سے طواف کا آغاز ہوتا ہے اس کو بوسہ دینا ہوتا ہے، اگر براہ راست بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا چھڑی لگا کر اس کو بوسہ دیا جاتا ہے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو محض اشارہ کافی ہے اور اشارہ کی صورت میں ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا جائے گا، اس سے اگلے دو کونے شامی اور عراقی ہیں، ان کو تغلیباً شامیان کہا جاتا ہے، چوتھا رکن (کونہ) جو حجراسود سے پہلے ہے، یمانی ہے، کیونکہ وہ یمن کی جہت میں ہے، اس کو صرف ہاتھ لگایا جاتا ہے، رکن یا ہاتھ کو چوما نہیں جاتا، رکن حجراسود اور رکن یمانی کو ایک کے نام کو غلبہ دے کر يمانيان کہہ دیا جاتا ہے، جیسے ماں وباپ کو ابوان، شمس وقمر کو قمران اور ابوبکروعمر کو عمران کہہ دیا جاتا ہے، یہ دونوں کونے چونکہ ابراہیمی بنیادوں پر ہیں، اس لیے صرف ان دونوں کو مس کیا جاتا ہے اور اس پر ائمہ اربعہ اور محدثین کا اتفاق ہے۔ (2) النعال السبتية: نعال، نعل کی جمع ہے، چپل، جوتا اور سبت مونڈنے کو کہتے ہیں یا رنگدار چمڑے کو کہتے ہیں، اس کی تفسیر خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا نے کردی ہے کہ بن بال جوتے اور آپ ان کو پہن کر ہی وضو کرلیتے تھے۔ (3) تصبغ بالصفرة: آپ زرد رنگ استعمال کرتے ہیں، یہ رنگ بالوں اور کپڑوں دونوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
فوائد ومسائل
1۔ حدیث میں مذکورہ چاروں کام مجموعی اعتبار سے صرف حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کیا کرتے تھے یا ابن جریج نے صرف ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ چاروں کا م کرتے دیکھا کیونکہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو نوں کومس کرتے تھے، خاص کراس وقت جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کعبہ کی تعمیر ابراہیمی بنیادوں پر کردی تھی اس طرح بعض تابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی چاروں کونوں کو مس کرتے تھے لیکن اب یہ اختلاف ختم ہو چکا ہے۔ 2۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ احرام، تلبیہ ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی شروع کر دینا چاہیے لیکن چونکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام اور تلبیہ کا آغاز اس وقت کیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ سے حج کے لیے چلے تھے اور مکہ میں افعال حج کا آغاز یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) (جس میں لوگ اپنے جانوروں کو اس دور میں پانی پلایا کرتے تھے) کو ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مکہ میں تلبیہ آٹھ ذوالحجہ کو شروع کرتے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ تلبیہ کا آغاز، مسجد ذوالحلیفہ کے پاس سوار ہو کر شروع کیا جائے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسجد کے اندر دو رکعت پڑھنے کے بعد تلبیہ شروع کر دیا جائے۔ اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باب، اپنے مسلک کے مطابق ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث کی روشنی میں باندھا ہے کہ تلبیہ کا آغاز سوار ہو کر کیا جائے گا۔ اس کا تعلق اپنے ملک اور علاقہ سے چلتے وقت سے ہے، مکہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ اور احرام آٹھ ذوالحجہ سے شروع کرنا افضل ہے اور احناف کے نزدیک یکم ذوالحجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ذوالحلیفہ میں دو رکعت نمازفجر پڑھی اور پھر مصلی پر ہی احرام باندھ کر صدائے لبیک بلند کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ubaid bin Juraij said to 'Ahdullah bin 'Umar (RA) : 'Abdul Rahman, I find you doing four things which I do not see anyone among your companions doing. He said: Son of Juraij, what are these? Thereupon he said: You (while circumambulating the Ka’bah) do not touch but the two pillars situated on the side of Yaman (south), and I find you wearing the sandals of tanned leather, and I find you with dyed beard and head, and I also found that, when you were at Makkah, the people pronounced Talbiya as they saw the new moon (Dhu'l-Hijja), but you did not do it till the 8th of Dhu'l-Hijja. Upon this 'Abdullab bin 'Umar said: So far as the touching of the pillars is concerned, I did not see the Messenger of Allah (ﷺ) touching them but only those situated on the side of Yaman. So far as the wearing of the shoes of tanned leather is concerned, I saw the Messenger of Allah (ﷺ) wearing shoes without hair on them, and he wore them with wet feet after performing ablution, and I like to wear them. So far as the yellowness is concerned, I saw the Messenger of Allah (ﷺ) dyeing (head, beard and cloth) with this colour and I love to dye (my head, beard or cloth) with this colour. And so far as the pronouncing of Talbiya is concerned, I did not see the Messenger of Allah (ﷺ) pronouncing it until his camel proceeded on (to Dhu'l-Hulaifa).